اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے حالیہ اجلاس میں پاکستان کے مستقل مندوب سفیر عاصم افتخار احمد نے ایک نہایت مدلل اور جاندار خطاب کیا جس نے عالمی برادری کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔
انہوں نے اپنی تقریر میں نشاندہی کی کہ دہشت گردی کے خلاف تشکیل دی جانے والی عالمی فہرستوں میں غیر مسلم شدت پسندوں کا نام شامل نہ ہونا کھلا دہرا معیار ہے۔ ان کے مطابق یہ طرزِ عمل نہ صرف غیر منصفانہ ہے بلکہ اس سے دنیا مزید تقسیم کا شکار ہو رہی ہے اور دہشت گردی کے خلاف اجتماعی جدوجہد کو بھی شدید نقصان پہنچ رہا ہے۔
سفیر عاصم نے واضح کیا کہ دنیا بھر میں ایسے غیر مسلم عناصر موجود ہیں جنہوں نے شدت پسندی کو فروغ دیا اور دہشت گردی کے واقعات میں ملوث پائے گئے، لیکن ان کے خلاف وہی عالمی رویہ دیکھنے کو نہیں ملتا جو مسلمانوں پر اختیار کیا جاتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ مخصوص مذہب کو نشانہ بنانا اور ایک فریق کو بار بار الزام کے کٹہرے میں کھڑا کرنا انصاف اور مساوات کے تقاضوں کے خلاف ہے۔ یہ رویہ دہشت گردی کی اصل جڑوں کو ختم کرنے کے بجائے دنیا کو مزید عدم اعتماد اور تقسیم کی طرف دھکیل رہا ہے۔
اپنے خطاب میں انہوں نے ڈیجیٹل دنیا کو ابھرتے ہوئے خطرے کے طور پر بیان کیا۔ انہوں نے کہا کہ شدت پسند گروہ اب صرف میدانِ جنگ میں نہیں بلکہ سوشل میڈیا اور جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے نوجوانوں کو اپنی جانب مائل کر رہے ہیں۔
انہوں نے زور دیا کہ انسدادِ دہشت گردی کے اقدامات ہمیشہ بین الاقوامی قوانین اور انسانی حقوق کے تقاضوں کے مطابق ہونے چاہئیں تاکہ یہ پالیسیز کسی مخصوص قوم یا مذہب کے خلاف ہتھیار کے طور پر استعمال نہ ہو سکیں بلکہ ان کے مثبت اور دیرپا نتائج سامنے آئیں۔
سفیر نے پاکستان کو درپیش خطرات کا بھی ذکر کیا اور بتایا کہ اس وقت تحریکِ طالبان پاکستان، بلوچ لبریشن آرمی اور مجید بریگیڈ جیسی تنظیمیں ملک کی قومی سلامتی کے لیے براہِ راست چیلنج بنی ہوئی ہیں۔
ان کے مطابق یہ گروہ نہ صرف اندرونی امن کو نشانہ بنا رہے ہیں بلکہ بیرونی سرزمین سے معاونت بھی حاصل کر رہے ہیں۔ انہوں نے اس بات پر بھی روشنی ڈالی کہ داعش خراسان جیسا دہشت گرد نیٹ ورک اب بھی شام، عراق اور افغانستان جیسے خطوں میں سرگرم ہے اور ہزاروں جنگجوؤں کے ساتھ خطے کے امن و استحکام کے لیے خطرے کی گھنٹی بجا رہا ہے۔
بھارت کے کردار پر گفتگو کرتے ہوئے پاکستانی مندوب نے کہا کہ نئی دہلی کھلے عام پاکستان کے خلاف دہشت گردوں کی سرپرستی کر رہا ہے۔ انہوں نے اس الزام کی بھی نشاندہی کی کہ بھارت نے حال ہی میں حملوں کے ذریعے پاکستان میں بے گناہ شہریوں کو نشانہ بنایا، جس میں خواتین اور بچے بھی شامل تھے۔
انہوں نے اسے ریاستی دہشت گردی قرار دیتے ہوئے کہا کہ ایسے اقدامات کو انسدادِ دہشت گردی کا نام دینا نہایت خطرناک رجحان ہے اور عالمی اداروں کو اس پر خاموش تماشائی نہیں رہنا چاہیے۔
اپنے خطاب کے اختتام پر سفیر عاصم نے زور دیا کہ دہشت گردی کے خلاف عالمی حکمت عملی غیر جانبدار، جامع اور انصاف پر مبنی ہونی چاہیے۔ ان کے مطابق عالمی امن اس وقت تک ممکن نہیں جب تک کہ دوہرے معیار ختم نہ ہوں اور دہشت گردی کی جڑوں پر براہِ راست حملہ نہ کیا جائے۔
ان کا کہنا تھا کہ دنیا کو اب یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ صرف انصاف اور مساوات کے اصولوں پر کھڑا ہو کر ہی دہشت گردی کو شکست دی جا سکتی ہے اور پائیدار امن قائم ہو سکتا ہے۔
