پاکستان کے معاشی تھنک ٹینک اکنامک پالیسی اینڈ بزنس ڈیولپمنٹ نے ایک جامع رپورٹ جاری کرتے ہوئے ملک میں نئے چھوٹے صوبوں کے قیام کی ضرورت پر زور دیا ہے، اور موجودہ انتظامی ڈھانچے کو معاشی مسائل، غربت، بے روزگاری، تعلیمی عدم توازن اور وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم کا اصل ذمہ دار قرار دیا ہے۔
رپورٹ میں تین ممکنہ ماڈلز پیش کیے گئے ہیں پہلے ماڈل کے تحت ملک میں 12 چھوٹے صوبے قائم کیے جا سکتے ہیں جن کی اوسط آبادی 2 کروڑ تک ہوگی، دوسرے ماڈل میں 15 سے 20 صوبےتجویز کیے گئے ہیں جہاں ہرصوبے کی آبادی 1.2 کروڑ سے 1.6 کروڑ تک ہوگی،جبکہ تیسرے ماڈل میں 38 وفاقی ڈویژنز کی تجویزدی گئی ہےجن کی اوسط آبادی 63 لاکھ کے لگ بھگ ہوسکتی ہے۔
رپورٹ کے مطابق پاکستان کی 24 کروڑ سےزائد آبادی محض 4 بڑےصوبوں میں بٹی ہوئی ہے،جس سےمعاشی توازن بگڑچکا ہے، اورہرصوبے کواس کی آبادی کےلحاظ سےمساوی وسائل نہیں مل پارہے۔
پنجاب کو 5,355 ارب جبکہ بلوچستان کوصرف 1,028 ارب روپے مل رہے ہیں،جبکہ غربت کی شرح پنجاب میں 30 فیصد، سندھ میں 45، خیبرپختونخوا میں 48 اور بلوچستان میں خطرناک حد تک 70 فیصد تک پہنچ چکی ہے۔ تعلیم اور صحت کے شعبے میں بھی شدید تفاوت پایا جاتا ہے، جیسے کہ پنجاب میں 10 لاکھ مریضوں کے لیے صرف 3 اسپتال موجود ہیں جبکہ سندھ میں 78 لاکھ بچے اسکولوں سے باہر ہیں۔
رپورٹ میں تجویز دی گئی ہے کہ چھوٹے صوبوں کے قیام سےنہ صرف غربت، بے روزگاری اور صحت وتعلیم جیسےمسائل پر قابو پایا جا سکتا ہے بلکہ ہر نئےصوبے میں ایک ٹیچنگ اسپتال،ایک یونیورسٹی اورخصوصی اقتصادی زون قائم کرکےصنعتی و زرعی ترقی کو فروغ دیاجا سکتا ہے۔
رپورٹ کے مطابق چھوٹے صوبے زرعی اصلاحات، پراپرٹی ٹیکس اصلاحات اور جی ڈی پی میں 1 سے 2 فیصد اضافے کا ذریعہ بن سکتے ہیں، جبکہ ٹیکس نظام میں ہم آہنگی، سٹے بازی کے خاتمے اور آمدن میں مساوات کے لیے بھی مؤثر ثابت ہوں گے۔
تھنک ٹینک کا کہنا ہے کہ فی الحال پاکستان کے صوبے عالمی معیار کے مقابلے میں بہت بڑے ہیں اور ان کی موجودہ ساخت مقامی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بن چکی ہے، لہٰذا اگر بہتر حکمرانی، تیز تر معاشی ترقی اور عوامی سہولیات کا بہتر انتظام مطلوب ہے تو ملک میں چھوٹے صوبوں کا قیام اب ناگزیر ہو چکا ہے۔
