امریکہ کی جانب سے بھارت پر عائد کیے گئے 50 فیصد اضافی ٹیرف نے بھارتی معیشت کو ایک بڑے چیلنج سے دوچار کر دیا ہے۔ اس سے قبل امریکہ نے بھارت پر روس سے تیل اور ہتھیار خریدنے کے باعث 25 فیصد اضافی جرمانہ بھی عائد کیا تھا۔ یہ اقدامات ایسے وقت میں سامنے آئے ہیں جب بھارت دنیا کی پانچویں بڑی معیشت ہونے کے باوجود معاشی دباؤ کا سامنا کر رہا ہے اور امریکہ اس کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار رہا ہے۔
ماہرین کے مطابق یہ بھاری محصولات بھارت کی برآمدات اور مجموعی ترقی کی رفتار کو متاثر کر سکتے ہیں، خاص طور پر اس وقت جب برآمدی صنعتوں کا انحصار امریکی مارکیٹ پر ہے۔
حکومت بھارت نے ان اقدامات کے جواب میں ہنگامی بنیادوں پر معاشی ریلیف پیکیجز تیار کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ وزیراعظم نریندر مودی نے عوام اور چھوٹے کاروباری طبقے کے لیے بڑے ٹیکس ریلیف کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ جلد ہی دیوالی سے قبل ایک بڑی خوشخبری دی جائے گی۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے قوم سے اپیل کی کہ وہ خود انحصاری کو اپنائیں اور اپنی دکانوں پر "میڈ اِن انڈیا” یا "سوَدیشی” کے بورڈ آویزاں کریں۔ مودی نے آزادی کے دن دہلی کے لال قلعے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ خود انحصاری مجبوری کے تحت نہیں بلکہ فخر کے ساتھ اختیار کی جانی چاہیے۔
ان کا کہنا تھا کہ دنیا بھر میں معاشی خودغرضی بڑھ رہی ہے اور اگر ہم اپنی مشکلات پر قابو پانے کے لیے کھڑے نہ ہوئے تو دوسروں کے رحم و کرم پر رہ جائیں گے۔ مودی نے اسی پیغام کو رواں ہفتے مختلف تقریبات میں دوبارہ دہرایا۔
امریکی ٹیرف کے اثرات بھارتی برآمدی صنعتوں پر فوری طور پر پڑیں گے، خاص طور پر ٹیکسٹائل، زیورات، ہیرے اور زرعی مصنوعات جیسی صنعتیں بری طرح متاثر ہوں گی کیونکہ ان مصنوعات کی سب سے بڑی منڈیاں امریکہ میں ہیں۔
اس سے لاکھوں افراد کی روزی خطرے میں پڑ سکتی ہے۔ بھارت اور امریکہ کے تعلقات میں یہ تناؤ روس سے توانائی اور اسلحہ کی خریداری پر امریکی اعتراضات کے بعد مزید بڑھا، جس کے نتیجے میں پہلے اضافی 25 فیصد ٹیرف لگایا گیا تھا اور اب یہ 50 فیصد کا بوجھ بڑھ چکا ہے۔
مودی حکومت نے واضح کر دیا ہے کہ معاشی دباؤ کو کم کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر ٹیکس اصلاحات متعارف کرائی جائیں گی۔ سال کے آغاز میں پہلے ہی 12 ارب ڈالر کے انکم ٹیکس ریلیف کا اعلان کیا جا چکا ہے، اب حکومت بالواسطہ ٹیکس نظام یعنی جی ایس ٹی میں بڑی تبدیلیاں کرنے کا منصوبہ بنا رہی ہے۔ جی ایس ٹی جو آٹھ سال قبل نافذ ہوا تھا، نے مختلف ٹیکسز کو یکجا کر کے کاروباری عمل کو آسان بنایا، مگر اس نظام میں اب بھی کئی پیچیدگیاں موجود ہیں۔
حکومت نے دو سطحی جی ایس ٹی نظام کی تجویز دی ہے تاکہ عمل درآمد مزید آسان ہو سکے۔ امریکی بروکریج ہاؤس جیفریز کا کہنا ہے کہ یہ اصلاحات اگر نافذ ہو جاتی ہیں تو تقریباً 20 ارب ڈالر کا ریلیف فراہم کریں گی، جو پہلے سے دیے گئے انکم ٹیکس فوائد کے ساتھ مل کر کھپت میں اضافہ کرے گا۔
بھارت کی معیشت میں صارفین کا خرچ بنیادی حیثیت رکھتا ہے اور یہ مجموعی معیشت کا تقریباً 60 فیصد حصہ بنتا ہے۔ دیہی علاقوں میں خرچ مستحکم ہے لیکن شہری علاقوں میں طلب کم ہو رہی ہے، جس کی وجہ آئی ٹی اور دیگر بڑے شعبوں میں نوکریوں میں کمی اور تنخواہوں میں کمی ہے۔
ماہرین کا خیال ہے کہ مودی کے اقدامات کھپت کو بڑھانے اور جی ڈی پی میں بہتری لانے کے ساتھ ساتھ مہنگائی کو کم کرنے میں بھی مددگار ثابت ہوں گے۔ مورگن اسٹینلی کے مطابق یہ اقدامات ایسے وقت میں کیے جا رہے ہیں جب دنیا میں جغرافیائی تنازعات اور تجارتی مسائل نے بیرونی مانگ کو متاثر کیا ہے، اس لیے بھارت کو اندرونی کھپت بڑھانے پر زور دینا ہوگا۔
سوئس بینک یو بی ایس کے مطابق جی ایس ٹی میں کمی کا اثر پچھلے انکم اور کارپوریٹ ٹیکس کٹوتیوں سے زیادہ ہوگا کیونکہ یہ براہِ راست صارفین کی خریداری پر اثر انداز ہوگا۔
اگر یہ اصلاحات کامیاب ہو جاتی ہیں تو بھارتی مرکزی بینک مزید شرح سود میں کمی کر سکتا ہے، جو پہلے ہی ایک فیصد کم کی جا چکی ہے۔ اس سے قرض لینا آسان ہوگا اور سرمایہ کاری بڑھے گی۔ مودی حکومت نے سرکاری ملازمین اور پنشنرز کی تنخواہوں میں اضافے کا بھی اعلان کیا ہے، جو اگلے سال کے آغاز میں نافذ ہوگا اور یہ بھی معیشت میں سرمایہ کے بہاؤ کو بڑھائے گا۔
تجارتی غیر یقینی صورتحال کے باوجود بھارتی اسٹاک مارکیٹس نے مثبت ردعمل دیا ہے اور حال ہی میں بھارت کو 18 سال بعد ایس اینڈ پی گلوبل کی جانب سے کریڈٹ ریٹنگ میں اپ گریڈ ملا ہے، جو حکومت کے لیے قرض لینے کی لاگت کم کرنے اور غیر ملکی سرمایہ کاری بڑھانے میں مددگار ہوگا۔ تاہم، ماہرین خبردار کرتے ہیں کہ بھارت کی ترقی کی رفتار پچھلے چند سالوں کے 8 فیصد سے کم ہو چکی ہے، اور امریکہ کے ساتھ تجارتی تنازع مزید شدت اختیار کر سکتا ہے۔
تجارتی مذاکرات منسوخ کر دیے گئے ہیں اور دونوں ممالک کے درمیان بیانات کی جنگ تیز ہو رہی ہے۔ ماہرین کے مطابق 50 فیصد ٹیرف بھارت کے لیے کسی تجارتی پابندی سے کم نہیں، اور یہ دنیا کی سب سے بڑی اور تیزی سے ترقی کرتی معیشتوں کے درمیان تعلقات کو مزید کشیدہ بنا سکتا ہے۔
