پاکستان اس وقت شدید موسمیاتی بحران کی لپیٹ میں ہے، جہاں مون سون بارشوں نے ایک بار پھر قیامت ڈھا دی ہے۔ ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں لاکھوں افراد بےگھر ہوچکے ہیں،جب کہ خیبرپختونخوا میں گلیشیئرز کے پگھلنے سے آنے والے اچانک سیلاب درجنوں جانیں نگل چکے ہیں اور سینکڑوں مکانات صفحۂ ہستی سے مٹ چکے ہیں۔ ایسے نازک وقت میں اقوام متحدہ ایک مرتبہ پھر پاکستان کے عوام کے ساتھ کھڑی نظر آئی ہے۔
نیویارک میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے سیکریٹری جنرل کے ترجمان اسٹیفن ڈوجارک نے اعلان کیا کہ اقوام متحدہ نے "سینٹرل ایمرجنسی ریسپانس فنڈ” سے 6 لاکھ ڈالر کی ہنگامی امداد جاری کر دی ہے، جو براہِ راست سیلاب متاثرین کی مدد کے لیے خرچ کی جائے گی۔
یہ امداد صرف ایک عددی رقم نہیں، بلکہ ایک زندگی بچانے والا سہارا ہے، جس سے متاثرہ خاندانوں کو عارضی پناہ گاہیں، طبی امداد، پینے کا صاف پانی، صفائی کے ضروری سامان اور نقد مالی معاونت فراہم کی جائے گی۔ ان اقدامات کا مقصد صرف فوری ریلیف فراہم کرنا نہیں، بلکہ متاثرین کی عزتِ نفس کو برقرار رکھتے ہوئے انہیں جلد از جلد زندگی کی طرف واپس لانا ہے۔
ماہرین کے مطابق پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جو موسمیاتی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں، لیکن سب سے کم ذمہ دار ہیں۔ ایسے میں بین الاقوامی برادری کی جانب سے یہ امداد نہ صرف ایک عملی قدم ہے بلکہ عالمی ذمہ داری کا بھی مظہر ہے۔
اقوام متحدہ کی اس کاوش کے ساتھ ساتھ پاکستان کی حکومت اور مقامی ادارے بھی متاثرہ علاقوں میں امدادی کارروائیوں میں مصروف ہیں، مگر چیلنجز بہت بڑے ہیں۔ سڑکیں ٹوٹ چکی ہیں، بجلی اور مواصلات کا نظام درہم برہم ہو چکا ہے، اور لاکھوں افراد کھلے آسمان تلے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
ایسے میں یہ عالمی امداد ایک امید کی کرن ہے، جو اس بات کی علامت ہے کہ دنیا ابھی پاکستان کو بھولی نہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ وقتی امداد کافی ہے؟ یا ہمیں مستقبل میں ایسے بحرانوں سے نمٹنے کے لیے عالمی سطح پر زیادہ مربوط، پائیدار اور دیرپا اقدامات کی ضرورت ہے؟
