رواں سال برطانیہ،جاپان اورجنوبی کوریا نے اپنی تاریخ کے سب سےشدیداورجھلسا دینے والے موسمِ گرما کا سامنا کیا ہے، جس نے ان ممالک کے درجہ حرارت کے تمام سابقہ ریکارڈ توڑ دیے۔ عالمی موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث یہ ممالک شدید گرمی کی لہر کی لپیٹ میں ہیں، جس کا اثر ان کی معیشت، صحت اور ماحول پر پڑا ہے۔
برطانیہ کا جون تا اگست اوسط درجہ حرارت 16.1 ڈگری سینٹی گریڈ ریکارڈ کیا گیا، جو 1884 سے اب تک کا سب سے بلند درجہ حرارت ہے۔ اس دوران ملک نے چار ہیٹ ویوز کا سامنا کیا اور بارشوں کی کمی کے باعث کئی علاقوں میں قحط کا اعلان کیا گیا۔ لندن کے زیرِ زمین میٹرو سسٹم میں ایئر کنڈیشنر نایاب ہیں، جس کی وجہ سے عوامی نقل و حمل اور گھروں میں رہنے والوں کو شدید مشکلات کا سامنا رہا۔
جاپان میں بھی اس سال 1898 کے بعد سب سے زیادہ اوسط درجہ حرارت 2.36 ڈگری زیادہ رہا۔ جاپانی حکام کے مطابق 1 مئی سے 24 اگست کے درمیان تقریباً 84 ہزار افراد کو اسپتال میں داخل کرایا گیا۔ جاپان میں اس شدت کی گرمی نے نہ صرف صحت کے نظام کو متاثر کیا بلکہ ماہرین کے مطابق جاپان کے مشہور چیری درختوں کا پھول آنے کا عمل بھی متاثر ہو گیا ہے۔
جنوبی کوریا میں جون سے اگست تک کا اوسط درجہ حرارت 25.7 ڈگری ریکارڈ کیا گیا، جو 1973 سے اب تک سب سے زیادہ تھا۔ مشرقی ساحلی شہر گانگ نینگ میں طویل قحط کے باعث پانی کی سطح میں زبردست کمی آئی ہے، جس کے نتیجے میں حکام نے پانی کی پابندیاں عائد کر دیں اور گھروں کے 75 فیصد پانی کے میٹر بند کر دیے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ عالمی حدت کی وجہ سے یہ موسمی پیٹرن اب معمول بن چکا ہے اور اگلے سال بھی اس طرح کی شدت کی گرمی کا امکان ہے۔ پروفیسر کم ہی ڈونگ نے کہا کہ آرکٹک کی ٹھنڈی ہوا کی کمزوری عالمی حدت کے اثرات کا حصہ ہے، جس کی وجہ سے ہیٹ ویوز زیادہ شدید اور بار بار آرہی ہیں۔
یہ موسمیاتی تبدیلیاں صرف ان تین ممالک تک محدود نہیں ہیں، بلکہ پوری دنیا میں ان کے اثرات محسوس ہو رہے ہیں۔ انسانی سرگرمیاں جیسے کاربن کے اخراج اور جنگلات کی کٹائی ان تبدیلیوں کو مزید بڑھا رہی ہیں، جس کے باعث عالمی سطح پر فوری طور پر ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات کو کم کرنے کے اقدامات کی ضرورت ہے۔
