وزیراعظم شہباز شریف نے شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے سربراہی اجلاس میں ایک جامع اور تفصیلی خطاب کرتے ہوئے پاکستان کے مؤقف کو بھرپور انداز میں پیش کیا۔ انہوں نے اپنے خطاب میں نہ صرف علاقائی امن، معاہدات اور مکالمے پر زور دیا بلکہ ماحولیاتی تبدیلی، دہشت گردی، اور فلسطین سمیت ایران کے خلاف جارحیت جیسے عالمی معاملات پر بھی کھل کر گفتگو کی۔
شہباز شریف نے کہا کہ پاکستان اپنے تمام ہمسایہ ممالک کے ساتھ پرامن اور مستحکم تعلقات قائم کرنے کا خواہاں ہے اور اس کے لیے مکالمہ اور سفارتکاری ہی وہ راستہ ہیں جن پر پاکستان ہمیشہ یقین رکھتا آیا ہے۔ ان کے مطابق خطے کے امن اور ترقی کے لیے یکطرفہ اقدامات ترک کرنا ہوں گے اور مل جل کر مسائل کا حل نکالنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کثیرالجہتی تعلقات، تعاون اور باہمی احترام کے اصولوں پر قائم ہے اور اسی فلسفے کے ساتھ ایس سی او کو مزید مضبوط بنانے کی کوششیں جاری رکھے گا۔
اپنے خطاب میں انہوں نے سندھ طاس معاہدے کا خصوصی ذکر کیا اور کہا کہ بھارت کی جانب سے یکطرفہ طور پر معاہدے کی معطلی نہ صرف پاکستان بلکہ پورے خطے کے لیے نقصان دہ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پانی جیسے اہم ترین مسئلے کو سیاسی فیصلوں کا شکار بنانا مستقبل میں خوفناک نتائج پیدا کرے گا۔ انہوں نے ایس سی او کے رکن ممالک سے اپیل کی کہ وہ اس مسئلے کے حل میں فعال کردار ادا کریں تاکہ خطے میں تعاون اور اعتماد کو فروغ دیا جا سکے۔ شہباز شریف نے زور دیا کہ پانی تک بلا رکاوٹ رسائی پاکستان کا حق ہے اور بین الاقوامی معاہدات کی پاسداری سب پر لازم ہے۔
وزیراعظم نے اپنے خطاب میں ماحولیاتی بحران پر بھی توجہ دلائی اور کہا کہ پاکستان ایک بار پھر تباہ کن بارشوں اور شدید سیلاب کا سامنا کر رہا ہے جس نے ملک کی تین بڑی دریاؤں کے کنارے وسیع پیمانے پر تباہی پھیلا دی ہے۔ انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ درجنوں انسانی جانیں ضائع ہوئیں، مویشی بہہ گئے، فصلیں برباد ہوئیں اور بنیادی ڈھانچے کو شدید نقصان پہنچا۔ ان کا کہنا تھا کہ ترقی پذیر ممالک جیسے پاکستان کا ماحولیاتی تبدیلیوں میں کردار نہ ہونے کے برابر ہے کیونکہ پاکستان کا عالمی کاربن اخراج میں حصہ ایک فیصد سے بھی کم ہے، لیکن نقصان سب سے زیادہ انہی ممالک کو اٹھانا پڑ رہا ہے۔ شہباز شریف نے عالمی قیادت پر زور دیا کہ وہ فوری اقدامات کرے، بصورت دیگر آنے والے برسوں میں جانی اور مالی نقصانات میں کئی گنا اضافہ ہوگا۔
خطاب میں شہباز شریف نے دہشت گردی کا بھی ذکر کیا اور بتایا کہ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بے پناہ قربانیاں دی ہیں۔ ان کے مطابق صرف ایک واقعہ، یعنی جعفر ایکسپریس کی ہائی جیکنگ نے 26 قیمتی جانیں لے لیں جن میں 18 سیکیورٹی اہلکار بھی شامل تھے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس اس بات کے ناقابلِ تردید شواہد ہیں کہ اس واقعے سمیت بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں کئی دیگر حملوں کے پیچھے غیر ملکی ہاتھ ملوث ہیں۔ انہوں نے یاد دہانی کرائی کہ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں 90 ہزار جانوں کی قربانی دی اور 152 ارب ڈالر سے زائد کے مالی نقصان برداشت کیے۔ یہ قربانیاں تاریخ میں اپنی مثال آپ ہیں اور دنیا کو انہیں تسلیم کرنا چاہیے۔
افغانستان کے بارے میں شہباز شریف نے کہا کہ پاکستان ایک پرامن اور مستحکم افغانستان چاہتا ہے، کیونکہ اس کے بغیر خطے میں دیرپا امن اور ترقی ممکن نہیں۔ انہوں نے کہا کہ خطے میں بہتر رابطہ کاری کے لیے زمینی، فضائی اور ریل کے مؤثر نظام درکار ہیں اور اس ضمن میں چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) عملی مظاہرہ ہے جو ایس سی او کے وژن کو حقیقت میں بدل رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سی پیک کے دوسرے مرحلے میں اسمارٹ شہروں کی تعمیر، زرعی شعبے میں جدت اور نئی ٹیکنالوجی کی صنعتوں پر توجہ دی جائے گی۔
وزیراعظم نے اسرائیل کے اقدامات پر بھی کڑی تنقید کی اور کہا کہ غزہ میں معصوم فلسطینیوں پر ڈھایا جانے والا ظلم اور ایران پر جارحیت ناقابلِ قبول ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ پاکستان ایسے اقدامات کی شدید مذمت کرتا ہے اور خطے میں امن کے لیے عالمی برادری کو کردار ادا کرنا ہوگا۔
اجلاس کے دوران شہباز شریف نے چینی صدر شی جن پنگ کی جانب سے پیش کیے گئے "گلوبل گورننس انیشی ایٹو” کو تاریخی قرار دیا اور کہا کہ یہ اقدام دنیا میں کثیرالجہتی نظام کو مزید مضبوط بنائے گا۔ انہوں نے چین کو کامیاب سربراہی اجلاس کے انعقاد پر مبارکباد دی اور تیانجن ڈیکلیریشن کا خیر مقدم کیا۔
اجلاس کے موقع پر وزیراعظم نے ایرانی صدر مسعود پزشکیان سے بھی ملاقات کی۔ دونوں رہنماؤں نے دوطرفہ تعلقات کے مختلف شعبوں پر بات کی اور اس بات پر اتفاق کیا کہ تعلقات کو مزید فروغ دیا جائے گا۔ شہباز شریف نے ایران کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا، جبکہ ایرانی صدر نے پاکستان میں سیلاب سے ہونے والی تباہی پر افسوس کا اظہار کیا اور تعاون کی یقین دہانی کرائی۔
اس کے علاوہ شہباز شریف نے تیانجن بنہائی نیو ایریا کے سیکرٹری لیان ماؤجون کی قیادت میں آنے والے چینی وفد سے بھی ملاقات کی۔ اس موقع پر وزیراعظم نے پاکستان کی ترقی میں چین کے کردار کو سراہا اور کہا کہ سی پیک نے توانائی اور انفراسٹرکچر کے میدان میں شاندار نتائج دیے ہیں۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ آنے والے مرحلے میں زرعی ترقی، اسمارٹ شہروں کی تعمیر اور ای۔کامرس کے شعبے کو فروغ دیا جائے گا تاکہ پاکستان کے عوام براہِ راست اس منصوبے سے فائدہ اٹھا سکیں۔
