اسلام آباد: قومی اسمبلی کے اجلاس میں سیلاب کی تباہ کاریوں پر بحث کے دوران ایوان ایک بار پھر سیاسی تنقید، بیوروکریسی پر الزامات اور طنزیہ جملوں کی گونج سے لرز اٹھا۔ بحث کا محور اس وقت بنا جب وفاقی وزیر ریلوے حنیف عباسی نے بغیر نام لیے وفاقی وزیر خواجہ آصف پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ "کبھی ہائبرڈ نظام کو کوسا جاتا ہے، کبھی بیوروکریسی پر تنقید کی جاتی ہے، اور کبھی نظام کو گندا قرار دیا جاتا ہے۔ اگر یہ سب کچھ اتنا ہی برا ہے تو پھر حکومت چھوڑ کر اپوزیشن میں جا بیٹھیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ کچھ وزراء صرف سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے لیے وزیراعظم اور وزیراعلیٰ کو بدنام کر رہے ہیں، حالانکہ وہ خود گزشتہ چالیس برسوں سے اسی نظام کا حصہ رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ایسے رویے نہ صرف حکومتی اتحاد کو نقصان پہنچاتے ہیں بلکہ متاثرینِ سیلاب کے ساتھ بھی ناانصافی ہے۔ حنیف عباسی کے اس سخت لب و لہجے نے ایوان میں سنسنی پیدا کر دی اور کئی ارکان نے غیر رسمی طور پر ان کے موقف سے اتفاق بھی کیا۔
بحث کے دوران تحریک انصاف کے سابق رکن نور عالم خان نے بھی بیوروکریسی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ اصل قبضہ مافیا سیاستدان نہیں بلکہ افسر شاہی ہے، جو ہر آفت کو کمائی کا موقع سمجھتی ہے۔ مسلم لیگ (ن) کی شائستہ پرویز ملک نے سیلاب کی تباہ کاریوں کی ذمہ داری لینڈ اور ٹمبر مافیا پر عائد کی، جبکہ سائرہ افضل تارڑ نے موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے قومی حکمت عملی کی ضرورت پر زور دیا۔ ایم کیو ایم کی آسیہ اسحاق نے ایک بار پھر نئے صوبوں اور بااختیار بلدیاتی نظام کی وکالت کی، اور فتح اللہ خان نے عالمی اداروں سے بھارت کی آبی جارحیت کا نوٹس لینے کا مطالبہ کیا۔
ایوان میں یہ بھی کہا گیا کہ قدرتی آفات کو سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کا ذریعہ نہ بنایا جائے، بلکہ متاثرہ عوام کی عملی مدد اور بہتر حکومتی اقدامات پر توجہ دی جائے۔ لیکن سب سے زیادہ توجہ حنیف عباسی کے اس جارحانہ اور غیر روایتی بیان نے حاصل کی، جس نے نہ صرف وزراء کے درمیان موجود خفیہ تناؤ کو آشکار کیا بلکہ حکومتی بیانیے میں پائی جانے والی دراڑوں کو بھی بے نقاب کر دیا۔
