کراچی: بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی) مینگل کے سربراہ، سردار اختر مینگل نے ایک بار پھر بلوچستان میں انسانی حقوق کی پامالی، جبری گمشدگیوں اور حکومتی پالیسیوں کے خلاف آواز بلند کی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ حملہ درحقیقت ان کی ذات پر نہیں بلکہ اس "آواز” پر ہے جو بلوچستان کے مظلوموں کے حقوق کے لیے مسلسل اُٹھائی جا رہی ہے۔
سردار اختر مینگل نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایف آئی آرز کا اندراج کوئی نئی بات نہیں ہے۔ انہوں نے طنزیہ انداز میں کہا کہ جنرل مشرف کے دور میں تو میری ایف آئی آرز کی سینچری لگ چکی تھی۔ ان کا اشارہ اس بات کی جانب تھا کہ بلوچستان میں حکومت کی پالیسیوں کے خلاف آواز اُٹھانے والوں پر ہمیشہ سختی اور ریاستی دباؤ ڈالا جاتا رہا ہے۔
اس موقع پر سردار اختر مینگل نے پاکستان کے آئین کو بھی آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا، "ہم اس آئین کو کیا بچائیں گے جو خود کو نہیں بچا سکا؟ یہ آئین صرف طاقتور طبقے کے تحفظ کے لیے ہے، کمزور کی کوئی شنوائی نہیں۔” انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ آئین کا مقصد عوام کے حقوق کا تحفظ کرنا تھا، لیکن موجودہ نظام میں اس آئین نے کمزور طبقات کی آواز دبانے کا کام کیا ہے، بالخصوص بلوچستان جیسے پسماندہ علاقے میں جہاں مسائل کا سامنا کرنے والے لوگ اکثر نظرانداز کیے جاتے ہیں۔
اس بحث میں وفاقی وزیر ریلوے حنیف عباسی نے بھی اپنا موقف پیش کیا۔ انہوں نے کہا کہ "میرے خواجہ آصف سے کوئی ذاتی اختلافات نہیں ہیں، لیکن حکومت میں رہتے ہوئے ذمہ داری کا مظاہرہ سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔” حنیف عباسی نے پاکستان کو درپیش مختلف بحرانوں پر بھی بات کی، خاص طور پر سیلاب، دہشت گردی اور بڑھتی ہوئی سیاسی تقسیم کے حوالے سے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ اگر قوم متحد نہ ہوئی تو حالات مزید ابتر ہو سکتے ہیں۔
اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے حنیف عباسی نے کہا کہ پاکستان کے موجودہ مسائل کا حل صرف نعرے بازی میں نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ "ملک کو درپیش مسائل کا حل سنجیدہ مکالمے اور اجتماعی شعور میں پنہاں ہے۔” ان کا کہنا تھا کہ ہمیں قومی سطح پر ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھ کر ان مسائل کا حل نکالنا ہوگا تاکہ ملک کو بحرانوں سے نکالا جا سکے۔
سردار اختر مینگل کی جانب سے بلوچستان اور وفاق کے درمیان بڑھتے ہوئے فاصلے پر کھل کر بات کی گئی، جس سے سیاسی بصیرت اور آئینی بحران کی گہرائیوں کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ ان کے بیانات نے ناظرین کو سوچنے پر مجبور کر دیا کہ آیا پاکستان کے مسائل کو محض سیاسی نعرے بازی کے ذریعے حل کیا جا سکتا ہے؟ یا پھر ہمیں حقیقی معاشی اور سیاسی اصلاحات کی ضرورت ہے؟
انہوں نے آئین کی حقیقت اور اس کے موجودہ نظام کے بارے میں سوالات اٹھاتے ہوئے بلوچستان کے عوام کے لیے ایک حقیقی تبدیلی کا مطالبہ کیا ہے۔ ان کے مطابق، بلوچستان میں جاری مظالم اور جبری گمشدگیاں صرف سیاسی بیانات سے نہیں رک سکتی ہیں، بلکہ اس کے لیے ایک مضبوط اور جامع حکومتی پالیسی کی ضرورت ہے جو بلوچستان کے عوام کو تحفظ فراہم کرے۔
اس گفتگو کے بعد یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ پاکستان میں مسائل کا حل صرف نعرے بازی یا حکومت کی تبدیلی میں نہیں، بلکہ اس کے لیے ایک قومی سطح پر سنجیدہ اور مثبت مکالمے کی ضرورت ہے۔ سیاستدانوں کو اپنے اختلافات بھلا کر قومی مفاد کے لیے سوچنا ہوگا۔ بلوچستان کے مسائل کو حل کرنے کے لیے حکومتی سطح پر ایک مضبوط اور شفاف پالیسی کی ضرورت ہے تاکہ وہاں کے عوام کو ان کے حقوق مل سکیں اور ملک کے آئین کا حقیقی نفاذ ہو سکے۔
کراچی :ملکی نجی چینل سےگفتگو کرتے ہوئے بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی) مینگل کے سربراہ سردار اختر مینگل نے ایک بار پھر بلوچستان میں انسانی حقوق کی پامالی، جبری گمشدگیوں اور حکومتی پالیسیوں کے خلاف آواز بلند کی۔
انہوں نے واضح کیا کہ ان پر ہونے والا حالیہ حملہ درحقیقت ان کی ذات پر نہیں بلکہ اس "آواز” پر ہے جو بلوچستان کے مظلوموں کے حق میں مسلسل اٹھائی جا رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایف آئی آرز کا اندراج کوئی نئی بات نہیں، جنرل مشرف کے دور میں تو میری ایف آئی آرز کی سینچری لگ چکی تھی، انہوں نے طنزیہ انداز میں کہا۔
اختر مینگل نے پاکستان کے آئین کو بھی آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا کہ ہم اس آئین کو کیا بچائیں گے جو خود کو نہیں بچا سکا، یہ آئین صرف طاقتور طبقے کے تحفظ کے لیے ہے، کمزور کی کوئی شنوائی نہیں۔
اس موقع پر وفاقی وزیر ریلوے حنیف عباسی نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ان کے خواجہ آصف سے ذاتی اختلافات نہیں، مگر حکومت میں رہتے ہوئے ذمہ داری کا مظاہرہ سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔ اس موقع پر ملک کو درپیش خطرات، جیسے کہ سیلاب، دہشتگردی اور بڑھتی ہوئی سیاسی تقسیم کی جانب توجہ دلاتے ہوئے کہا کہ اگر قوم متحد نہ ہوئی تو حالات مزید ابتر ہو سکتے ہیں۔ اس موقع پر سیاسی بصیرت، آئینی بحران اور وفاق و بلوچستان کے درمیان بڑھتے ہوئے فاصلے پر کھل کر بات کی گئی، جس نے ناظرین کو سوچنے پر مجبور کر دیا کہ پاکستان کے مسائل کا حل صرف نعرے بازی میں نہیں، بلکہ سنجیدہ مکالمے اور اجتماعی شعور میں پنہاں ہے۔
