تاریخ میں بعض فیصلے اتنے غیر معمولی اور شاکنگ ہوتے ہیں کہ وہ آنے والی نسلوں تک ایک سنسنی خیز داستان بن کر رہ جاتے ہیں، اور اولیور کرومویل کا انجام ان ہی واقعات میں سے ہے۔ ایک ایسا رہنما جس نے انگلینڈ کی تقدیر بدل ڈالی تھی، جس کے فیصلوں نے بادشاہت کو مٹا دیا اور جمہوریت کو فروغ دیا، لیکن ان کے بعد جو کچھ ہوا، وہ تاریخ کے سب سے غیر معمولی اور عبرتناک فیصلوں میں سے ایک بن گیا۔
1642 میں انگلینڈ خانہ جنگی کی لپیٹ میں آیا، جہاں شاہی حامیوں اور پارلیمنٹ کے حمایتیوں کے درمیان خونریز لڑائیاں ہوئیں۔ ان میں سے اولیور کرومویل، جو ایک فوجی رہنما اور سیاست دان تھے، نے پارلیمنٹ کی فوج کی قیادت کی اور انگلینڈ کی تقدیر کو یکسر بدل دیا۔ اس خانہ جنگی کے دوران کرومویل نے نہ صرف بادشاہ چارلس اول کو غداری کے الزام میں پھانسی دلائی بلکہ ولی عہد چارلس دوم کو بھی جلا وطن کرنے کے فیصلے کی حمایت کی۔ اس کے بعد کرومویل انگلینڈ کے "لارڈ پروٹیکٹر” بنے اور ایک جمہوری حکومت کی قیادت کی۔
کرومویل کی وفات 1658 میں ہوئی، اور انہیں بادشاہوں کی شان کے مطابق دفن کیا گیا، لیکن ان کی موت کے چند سال بعد ایک ایسا فیصلہ کیا گیا جس نے کرومویل کی شخصیت کو ہمیشہ کے لیے تاریخ کے صفحات پر ایک منفرد مقام دلایا۔ 1661 میں بادشاہ چارلس دوم نے اپنے والد کی موت کا انتقام لینے کے لیے کرومویل اور اس کے ساتھیوں کی قبریں کھودنے کا حکم دیا۔ ان کی لاشوں کو نکال کر پھر ان کی علامتی پھانسی دی گئی۔
کرومویل کی لاش کو لندن کے ٹائی برن پر لٹکایا گیا، جہاں اس کے بعد اس کا سر قلم کر کے چھ میٹر بلند کھمبے پر لٹکا دیا گیا۔ یہ منظر ایک طاقتور انتقام کی علامت بن گیا، جو انگلینڈ کی بادشاہت کے دوبارہ احیاء کی علامت تھا۔ ایک ایسا انتقام جس نے نہ صرف کرومویل کی زندگی بلکہ اس کے تمام فیصلوں کو بھی ایک متنازعہ اور دل دہلا دینے والی حقیقت میں بدل دیا۔
لیکن کرومویل کی داستان یہاں ختم نہیں ہوئی۔ اس کے سر نے ایک الگ ہی راہ اختیار کی۔ طوفانی دنوں میں اس کا سر گر کر کہیں غائب ہو گیا، اور پھر صدیوں تک یہ مختلف افراد اور نوادرات کے شوقینوں کے ہاتھوں میں گردش کرتا رہا۔ کبھی عجائب گھروں میں رکھا گیا، کبھی قریبی مقامات پر نمائش کے لیے پیش کیا گیا۔ 1960 میں آخرکار کرومویل کا سر کیمبرج یونیورسٹی کے سڈنی سسیکس کالج میں دفن کر دیا گیا، جہاں وہ تعلیم حاصل کیا کرتے تھے۔
اولیور کرومویل کی لاش کی پھانسی اور اس کے سر کی گرداب میں گردش کرنے کی کہانی نہ صرف انگلینڈ کی سیاست کی شدت کو ظاہر کرتی ہے، بلکہ ایک ایسا باب بھی ہے جس نے تاریخ کو ہمیشہ کے لیے ایک نیا رخ دیا۔ کرومویل کے سر کا 300 سال تک مختلف ہاتھوں میں گھومنا ایک علامت بن گیا کہ تاریخ میں کچھ فیصلے کبھی نہیں مر سکتے، اور وہ ہمیشہ کسی نہ کسی شکل میں زندہ رہتے ہیں۔
