پنجاب کے ضلع ملتان کی تحصیل جلالپور پیروالا دریائے چناب اور ستلج کے پانی کے ریلوں میں گھِر چکی ہے، جہاں ہزاروں خاندان زندگی اور موت کی کشمکش میں ہیں۔ بستی چاچڑاں اور بیٹ مغل جیسے دیہات میں کچے مکانات زمین بوس ہو گئے ہیں، لوگ ٹیلوں، درختوں اور چھتوں پر بیٹھے مدد کے منتظر ہیں جبکہ ریسکیو سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں۔
علی کھاکھی نامی مقامی شہری نے رات گئے دارنیوز کو فون پر بتایاہم 10 لوگ درختوں پر بیٹھے ہیں اور نیچے پانی کی سطح بلند ہوتی جا رہی ہے۔ بچے غیر محفوظ ہیں، کوئی امداد نہیں ملی، اور ابھی تک کوئی نہیں آیا۔اس کے بعد ان کا فون کال بار بار نیٹ ورک خرابی کے باعث منقطع ہو گیا۔
مقامی افراد کے مطابق صرف اتوار کے دن پانی کی سطح تین سے چار فٹ بلند ہوئی جس نے خوف و ہراس کو کئی گنا بڑھا دیا ہے۔ محمد شہزاد نامی رہائشی نے بتایا کہ وہ اپنے گھر کی چھت پر محصور ہیں کیونکہ چار دیواری پانی میں بہہ گئی ہے۔
پی ڈی ایم اے کے اعداد و شمار کے مطابق صوبے بھر میں 2308 سے زائد دیہات زیر آب ہیں اور 20 لاکھ سے زیادہ افراد متاثر ہو چکے ہیں، تاہم جلالپور میں محض چار کشتیاں دستیاب ہیں۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ اگر سہولیات بروقت فراہم ہوتیں تو ہزاروں افراد پہلے ہی محفوظ مقامات تک منتقل ہو سکتے تھے۔
صورتحال کی سنگینی اس وقت اور بڑھ گئی جب وچھہ سندیلہ میں ایک کشتی تیز بہاؤ کے باعث الٹ گئی، جس میں ایک خاتون اور تین بچوں سمیت پانچ افراد جاں بحق جبکہ ایک بچہ لاپتہ ہو گیا۔ ریسکیو 1122 کے مطابق کشتی میں 20 سے زائد افراد سوار تھے، جن میں سے 12 کو بچا لیا گیا۔
ڈپٹی کمشنر ملتان وسیم حامد سندھ نے دعویٰ کیا کہ وہ اپنی ٹیم کے ساتھ متاثرہ علاقوں میں موجود ہیں اور لوگوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا جا رہا ہے۔ دوسری جانب مقامی شہری شدید غم و غصے میں ہیں کہ اتنی بڑی تحصیل کی سات لاکھ آبادی کے لیے صرف چند کشتیاں فراہم کی گئی ہیں۔
وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف اور سیکریٹری ایمرجنسی سروسز ڈاکٹر رضوان نصیر نے کشتی حادثے پر دکھ اور متاثرہ خاندانوں کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا۔ تاہم دیہات میں محصور لوگ اب بھی فوری اور بڑے پیمانے پر ریسکیو آپریشن کے منتظر ہیں۔
