اسرائیل اور قطر کے درمیان بڑھتے ہوئے تنازعات کی گونج عالمی سطح پر سنائی دی جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اسرائیل کے وزیر اعظم بینیامن نیتن یاہو سے قطر پر حالیہ حملے کے بارے میں سخت ناراضی کا اظہار کیا۔ امریکی میڈیا کی رپورٹ کے مطابق ٹرمپ نے اسرائیلی حملے کو غیر دانشمندانہ قرار دیتے ہوئے نیتن یاہو سے اس معاملے پر تفصیل سے بات کی۔ اس دوران، امریکی صدر نے سوال کیا کہ کیا حملہ کامیاب رہا؟
امریکی صدر کا یہ سوال کہ "کیا حملہ کامیاب رہا؟” اس بات کو واضح کرتا ہے کہ ٹرمپ نے اسرائیل کی جانب سے قطر میں کیے گئے حملے کو سنجیدگی سے لیا ہے اور اس پر عدم اطمینان کا اظہار کیا۔ ٹرمپ کی طرف سے ایسی تنقید ایک نیا سنگ میل ثابت ہو سکتی ہے کیونکہ امریکہ ہمیشہ اسرائیل کا حمایتی رہا ہے۔ نیتن یاہو نے جواب میں کہا کہ انہیں ایک موقع ملا تھا اور اسی وجہ سے انہوں نے یہ کارروائی کی، مگر ٹرمپ کی ناراضی اس بات کو ظاہر کرتی ہے کہ عالمی برادری میں اس حملے کے نتائج پر سنگین سوالات اٹھ رہے ہیں۔
اسرائیلی وزیراعظم نے امریکی صدر کے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ انہیں ایک نیا اور منفرد موقع ملا تھا، جس کی بنیاد پر انہوں نے حملہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ تاہم، یہ وضاحت امریکہ سمیت عالمی طاقتوں کے لیے مزید پریشانی کا باعث بن سکتی ہے۔ نیتن یاہو کی جانب سے قطر پر حملے کا یہ جواز عالمی سطح پر سوالات کو جنم دے رہا ہے، خصوصاً جب بات عالمی امن اور استحکام کی ہو۔
ٹرمپ کے اسرائیلی وزیراعظم سے یہ غیر متوقع گفتگو عالمی سطح پر اسرائیل کی حکمت عملی کے حوالے سے نئے سوالات کو جنم دے رہی ہے۔ امریکہ نے ہمیشہ اسرائیل کو حمایت فراہم کی ہے، لیکن قطر پر اسرائیلی حملے کے بعد اس حمایت میں کمی یا تبدیلی کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔ یہ ایک ایسا لمحہ ہے جو اسرائیل اور امریکہ کے تعلقات میں ممکنہ تبدیلی کا عندیہ دے سکتا ہے۔
قطر پر اسرائیلی حملے کے بعد عالمی برادری نے اس پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔ قطر کے حکام نے اس حملے کو "غیر ضروری” اور "غیر قانونی” قرار دیا ہے، جب کہ امریکہ کے اندر بھی اس حملے کے نتائج پر سوالات اٹھ رہے ہیں۔ ان تمام تبدیلیوں کے درمیان، ٹرمپ کی نیتن یاہو سے گفتگو نے اس بات کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے کہ اسرائیل کے ساتھ امریکہ کے تعلقات آئندہ کیا شکل اختیار کریں گے۔
