یورپ کے شہری فضائی سفر کو ایک بار پھر بڑا خطرہ لاحق ہوا ہے جب پولینڈ کی فضاؤں میں روسی ڈرونز داخل ہوئے۔ یہ واقعہ نہ صرف مسافروں کے لیے تشویش کا باعث ہے بلکہ فضائی صنعت اور انشورنس کمپنیوں کے لیے بھی نئے سوالات کھڑے کر رہا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر یہ واقعات معمول کا حصہ بن گئے تو یورپی ایئرلائنز کو اپنے روٹس، پروازوں کے اوقات اور حفاظتی انتظامات کو بنیادی طور پر تبدیل کرنا پڑے گا۔
بدھ کی صبح پولینڈ کے دفاعی نظام نے نیٹو کے اتحادی طیاروں کی مدد سے اپنی فضاؤں میں داخل ہونے والے کئی روسی ڈرون مار گرائے۔ یہ ایک تاریخی لمحہ تھا کیونکہ یوکرین پر 2022 میں روس کے حملے کے بعد پہلی بار کسی نیٹو ملک نے براہِ راست روسی فوجی آلات کو نشانہ بنایا۔ اس کارروائی کے دوران احتیاطی طور پر وارسا، موڈلن، لوبلن اور ژیشوف کے ہوائی اڈے بند کر دیے گئے۔ اگرچہ کچھ گھنٹوں بعد پروازیں دوبارہ بحال ہو گئیں، لیکن اس وقت کے دوران درجنوں پروازیں متاثر ہوئیں، کئی منسوخ ہوئیں اور کئی کو مغربی پولینڈ کی طرف موڑ دیا گیا۔
اس سے قبل یوکرین کی سرحد سے متصل ممالک نے روسی میزائل یا ڈرونز کے اپنی فضاؤں میں داخل ہونے کی شکایات ضرور کی تھیں، لیکن اس پیمانے پر داخلہ اور براہِ راست کارروائی پہلے کبھی سامنے نہیں آئی تھی۔ اس بار نہ صرف تعداد زیادہ تھی بلکہ خطرہ اتنا بڑا تھا کہ فوری فوجی ردعمل دینا ضروری سمجھا گیا۔
یہ واقعہ یورپ کے لیے ایک ’’ویک اپ کال‘‘ قرار دیا جا رہا ہے۔ ماہرین کے مطابق شہری فضائی نظام انتہائی نازک اور کمزور ہے اور یہ وقت یاد دہانی ہے کہ جنگی صورتحال میں عام پروازیں بھی کسی بڑے حادثے کی لپیٹ میں آ سکتی ہیں۔
اگرچہ ڈرونز صبح سویرے داخل ہوئے اور اس وقت زیادہ تر پروازیں روانہ نہیں ہوئی تھیں، اس کے باوجود نقصان محدود نہ رہا۔ پولینڈ کی قومی ایئرلائن LOT نے کئی پروازوں کا رخ مغرب کی طرف موڑ دیا، جبکہ وِز ایئر کو اپنا شیڈول تبدیل کرنا پڑا۔ اس کے ساتھ ہی برطانیہ، جرمنی اور آئرلینڈ کی بڑی ایئرلائنز کے حصص بھی گر گئے۔
برٹش ایئرویز کی کمپنی IAG کے شیئرز 4.1 فیصد نیچے گئے، ایزی جیٹ کے حصص اپریل کے بعد سب سے کم سطح پر پہنچے، جبکہ لفتھانسا اور رائن ایئر میں بھی 2.2 فیصد کمی دیکھی گئی۔ سرمایہ کاروں نے خدشہ ظاہر کیا کہ اگر حالات ایسے ہی رہے تو فضائی صنعت کو اربوں ڈالر کے نقصان کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
یہ معاملہ صرف پولینڈ تک محدود نہیں ہے۔ دنیا کے مختلف حصوں میں تنازعات اور جنگوں نے ایئرلائنز کو پہلے ہی مشکلات میں ڈال رکھا ہے۔ یوکرین اور روس کے درمیان جنگ کے باعث کئی ممالک نے اپنی فضائیں بند کر رکھی ہیں۔ مشرقِ وسطیٰ میں اسرائیلی حملے اور فلسطینی تنظیموں کے جوابی اقدامات بھی پروازوں کے لیے خطرہ ہیں۔ اسی طرح بھارت اور پاکستان کے درمیان کشیدگی کے وقت بھی فضائی راستے بند کیے گئے تھے۔
ان بندشوں کی وجہ سے ایئرلائنز کو لمبے راستے اختیار کرنے پڑتے ہیں۔ اس سے نہ صرف فیول کی کھپت بڑھتی ہے بلکہ پروازوں کے اخراجات بھی بڑھ جاتے ہیں۔ مسافروں کو بھی زیادہ وقت اور زیادہ کرایوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یورپ کی فضاؤں کو کنٹرول کرنے والے ادارے یورو کنٹرول نے تسلیم کیا ہے کہ یوکرین کی فضاؤں کی بندش نے خطے میں پروازوں کی بھیڑ بڑھا دی ہے اور ایئر ٹریفک کنٹرول پر دباؤ بڑھا ہے۔
ایسے حالات میں سب سے بڑا خطرہ ’’غلط شناخت‘‘ ہے۔ دفاعی نظام اکثر جنگی حالات میں یہ سمجھ بیٹھتا ہے کہ عام مسافر طیارہ دشمن کا ہدف ہے اور نتیجہ تباہ کن ہوتا ہے۔ 2020 میں ایران نے غلطی سے یوکرین کا مسافر طیارہ مار گرایا تھا جس میں 176 افراد ہلاک ہوئے۔ حال ہی میں قازقستان میں ایک آزربائیجان ایئرلائنز کی پرواز روسی دفاعی غلطی کے باعث تباہ ہوئی جس میں 38 افراد جاں بحق ہوئے۔
2001 سے اب تک چھ کمرشل طیارے غیر ارادی طور پر جنگی حالات میں نشانہ بنائے جا چکے ہیں۔ یہ تاریخ یاد دلاتی ہے کہ ایک لمحے کی غلطی ہزاروں جانوں کے ضیاع کا باعث بن سکتی ہے۔
ایوی ایشن انشورنس مارکیٹ بھی اس صورتحال پر قریب سے نظر رکھے ہوئے ہے۔ انشورنس ماہرین کہتے ہیں کہ اگر روسی ڈرونز مسلسل پولینڈ کی فضاؤں میں داخل ہوتے رہے یا مشرقِ وسطیٰ میں اسرائیلی حملے بڑھتے گئے تو انشورنس کی لاگت میں اضافہ ہوگا۔ ایئرلائنز کو زیادہ پریمیم دینا پڑے گا اور بعض اوقات ان کے لیے خطرناک علاقوں میں پروازیں ممکن ہی نہیں رہیں گی۔
ایوی ایشن کنسلٹنٹس کے مطابق اب ایئرلائنز کو اپنے روٹس کا دوبارہ جائزہ لینا پڑے گا۔ ممکن ہے کہ وہ پولینڈ کے مشرقی حصے کی بجائے مغربی حصے میں زیادہ پروازیں کریں تاکہ روس، بیلا روس اور یوکرین کی سرحدوں سے دور رہیں۔ کچھ ایئرلائنز دن کے اوقات میں زیادہ پروازیں کرنے کو ترجیح دیں گی تاکہ رات کی تاریکی میں خطرات کم ہوں۔ اس کے علاوہ ایئرلائنز کو اضافی فیول ساتھ رکھنے کی ہدایت کی جا رہی ہے تاکہ کسی بھی ہنگامی صورتحال میں پرواز کو دور دراز ایئرپورٹ پر اتارا جا سکے۔
ماہرین کے مطابق بدترین صورتحال وہ ہوگی جب کوئی مسافر طیارہ براہِ راست حملے کا نشانہ بن جائے۔ چاہے یہ غلطی سے ہو یا دانستہ، اس کے نتائج نہ صرف مسافروں بلکہ پوری دنیا کی فضائی صنعت کے لیے تباہ کن ہوں گے۔
ایرک شاؤٹن، جو ایک سکیورٹی کنسلٹنٹ ہیں، نے کہا:“یہ واقعہ پورے یورپ کے لیے انتباہ ہے۔ اگر ایسے حملے بار بار ہوں تو خطرہ ہے کہ کسی وقت ایک بڑا سانحہ پیش آ سکتا ہے۔”
پولینڈ کا یہ واقعہ واضح کرتا ہے کہ دنیا کے موجودہ حالات میں شہری فضائی سفر کس قدر غیر محفوظ ہوتا جا رہا ہے۔ روس، یوکرین اور مشرقِ وسطیٰ کے تنازعات نے ایئرلائنز کو پہلے ہی کمزور کر دیا ہے۔ اب اگر ایسے ڈرون حملے معمول کا حصہ بن گئے تو نہ صرف ایئرلائنز کے اخراجات بڑھیں گے بلکہ مسافروں کے لیے سفر بھی زیادہ مہنگا اور غیر محفوظ ہو جائے گا۔ یورپ اور دنیا بھر کے ایوی ایشن ادارے اب مزید دباؤ میں ہیں کہ وہ مسافروں کو محفوظ رکھنے کے لیے فوری اور مؤثر اقدامات کریں۔
