امریکہ ایک بار پھر ایسے دل دہلا دینے والے واقعے کا شکار ہوا ہے جس نے پورے معاشرے کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ یوٹاہ کی ایک یونیورسٹی میں ہزاروں طلبہ جمع تھے جہاں سیاسی مکالمہ جاری تھا، موسم خوشگوار تھا اور ایک بڑے خیمے کے نیچے مشہور قدامت پسند کارکن چارلی کرک اپنے ناقدین سے بحث کر رہے تھے۔ کچھ نوجوان ان کے حق میں نعرے لگا رہے تھے تو کچھ طلبہ احتجاج کر رہے تھے۔ لیکن اچانک گولی کی آواز نے اس پرامن ماحول کو خوف و ہراس میں بدل دیا۔ چند لمحوں میں چیخ و پکار، بھاگ دوڑ اور بے یقینی چھا گئی۔ کرک کو گردن پر گولی لگی، وہ شدید زخمی ہوئے اور جانبر نہ ہو سکے۔
چارلی کرک صرف ایک عام مقرر نہیں تھے بلکہ قدامت پسند طلبہ میں ہیرو کا درجہ رکھتے تھے۔ انہیں ایک ایسی شخصیت سمجھا جاتا تھا جو نوجوانوں کو اپنی سوچ اور اپنے نظریات کی طرف متوجہ کرنے میں کامیاب رہی۔ وہ کھلے عام ڈونلڈ ٹرمپ کی حمایت کرتے تھے، اسلحے کے حق میں آواز بلند کرتے تھے اور ٹرانس جینڈر حقوق کے سخت ناقد تھے۔ ان کی تنظیم "ٹرننگ پوائنٹ یو ایس” نے نوجوان ووٹروں کو متحرک کرنے میں مرکزی کردار ادا کیا تھا، جس کا نتیجہ ٹرمپ کی اقتدار میں واپسی کی صورت میں سامنے آیا۔ ان کی تقاریر، مباحثے اور جارحانہ طرزِ سیاست نے انہیں بلاشبہ قدامت پسند حلقوں میں ایک مشہور چہرہ بنا دیا تھا۔
واقعے کی سب سے افسوسناک پہلو یہ ہے کہ اس بار بھی سب کچھ کیمروں کے سامنے ہوا۔ کئی طلبہ نے ویڈیوز ریکارڈ کیں اور خون آلود مناظر براہ راست دنیا تک پہنچ گئے۔ ایسے مناظر بھلائے نہیں جا سکتے، خاص طور پر ان نوجوانوں کے لیے جو کرک کو ایک رہنما اور مثالی شخصیت سمجھتے تھے۔ ان کے لیے کرک اب محض ایک سیاسی کارکن نہیں بلکہ اپنے نظریے کے لیے قربانی دینے والے شہید کے طور پر یاد رکھے جائیں گے۔
کرک خود کئی بار خبردار کر چکے تھے کہ ان کے مخالفین پرتشدد ہو سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا تھا کہ ان کے نظریات کی وجہ سے انہیں اکثر دھمکیاں ملتی ہیں۔ اس کے باوجود وہ مختلف یونیورسٹیوں کا رخ کرتے اور بائیں بازو کے خیالات رکھنے والے طلبہ کے ساتھ براہ راست بحث کرتے۔ ان کے خیمے پر لکھا ہوا تھا: "ثابت کرو کہ میں غلط ہوں”۔ یہ الفاظ ان کی شخصیت کی عکاسی کرتے تھے کہ وہ کھلے دل سے اختلاف سننے اور جواب دینے پر یقین رکھتے ہیں۔
امریکہ میں یہ پہلا موقع نہیں کہ کسی بڑی سیاسی شخصیت کو اس طرح کے حملے کا سامنا کرنا پڑا ہو۔ حالیہ برسوں میں سیاسی تشدد کے کئی واقعات رونما ہوئے ہیں۔ منی سوٹا میں دو ڈیموکریٹ ارکان اسمبلی کو گھروں میں نشانہ بنایا گیا، جن میں سے ایک جاں بحق ہو گیا۔ سابق صدر ٹرمپ خود دو بار قاتلانہ حملوں سے بال بال بچے، ایک بار پنسلوینیا میں جلسے کے دوران ان پر فائرنگ ہوئی جس کے مناظر آج بھی لوگوں کے ذہنوں میں تازہ ہیں۔
اس سے پہلے نینسی پیلوسی کے گھر پر ایک شخص ہتھوڑا لے کر داخل ہوا اور ان کے شوہر پر حملہ کیا۔ 2017 میں ریپبلکن ارکان پر اس وقت فائرنگ کی گئی جب وہ ورجینیا میں بیس بال کی مشق کر رہے تھے۔ یہ سب واقعات اس بات کی علامت ہیں کہ امریکی سیاست ایک خطرناک راستے پر چل نکلی ہے جہاں اختلافِ رائے تشدد میں بدل جاتا ہے۔
ماہرین اور مبصرین اس صورتحال کو نہایت تشویشناک قرار دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ تقسیم، نفرت انگیز تقاریر، سوشل میڈیا پر شدت پسندانہ مہمات اور ہتھیاروں تک آسان رسائی نے معاشرے کو اس نہج تک پہنچا دیا ہے کہ اب سیاسی زندگی خود ایک جان لیوا کھیل بن گئی ہے۔اگر سیاست دان، کارکن اور عوام بھی محفوظ نہیں تو پھر جمہوری اقدار کس طرح زندہ رہ سکتی ہیں۔
واقعے کے بعد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے فوری طور پر ردعمل دیا۔ وائٹ ہاؤس سے جاری اپنے بیان میں انہوں نے کہا کہ یہ امریکہ کے لیے ایک سیاہ دن ہے۔ انہوں نے اس حملے کا الزام بائیں بازو کی جماعتوں پر لگایا اور کہا کہ قدامت پسندوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ انہوں نے وعدہ کیا کہ ان مجرموں کو تلاش کیا جائے گا جو نہ صرف کرک کے قتل کے ذمہ دار ہیں بلکہ ان سب سیاسی تشدد کے واقعات کے پیچھے ہیں جو حالیہ برسوں میں سامنے آئے۔ ٹرمپ کے بیانات قدامت پسند حلقوں میں بھرپور پذیرائی حاصل کر رہے ہیں، جہاں پہلے ہی یہ مطالبات شدت پکڑ رہے ہیں کہ بائیں بازو کی تنظیموں پر سخت کارروائی کی جائے۔
قدامت پسند کارکن کرسٹوفر روفو نے سوشل میڈیا پر لکھا کہ وقت آ گیا ہے کہ قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے ان گروپوں کو توڑا جائے، گرفتار کیا جائے اور جیلوں میں ڈالا جائے تاکہ انتشار ختم ہو سکے۔ دوسری طرف کانگریس میں بھی اس قتل پر ایک منٹ کی خاموشی اختیار کی گئی، لیکن اس کے فوراً بعد ارکان کے درمیان زبردست جھگڑا چھڑ گیا جس نے یہ ظاہر کر دیا کہ اختلافات اور کشیدگی ابھی کم نہیں ہوئی بلکہ مزید بڑھ رہی ہے۔
ریاست یوٹاہ کے گورنر اسپینسر کاکس نے واقعے کے بعد ایک جذباتی پریس کانفرنس کی۔ انہوں نے کہا کہ یہ قوم جو اپنی 250 ویں سالگرہ منانے جا رہی ہے، آج ٹوٹ پھوٹ کا شکار دکھائی دیتی ہے۔ ان کے الفاظ تھے: "کیا یہ سب کچھ ہے؟ کیا ڈھائی سو سال کی تاریخ نے ہمیں یہاں تک پہنچا دیا ہے؟” ان کا کہنا تھا کہ وہ دعا کرتے ہیں کہ ایسا نہ ہو لیکن حقیقت یہ ہے کہ ملک کا مستقبل غیر یقینی اور تشویشناک دکھائی دیتا ہے۔
امریکہ میں تشدد کا یہ بڑھتا ہوا سلسلہ صرف سیاست دانوں یا کارکنوں کے لیے خطرہ نہیں بلکہ جمہوریت کے مستقبل کے لیے بھی ایک سنگین سوال ہے۔ جب کوئی نوجوان یونیورسٹی کی سبز گھاس پر بیٹھ کر اپنے پسندیدہ رہنما کو سنتا ہے اور پھر اچانک گولیوں کی آواز میں خوفزدہ ہو کر بھاگتا ہے تو اس کے دل میں صرف اپنے ملک کے بارے میں نہیں بلکہ اپنے مستقبل کے بارے میں بھی شکوک پیدا ہوتے ہیں۔ یہ وہ نقصان ہے جو کسی بھی قاتلانہ حملے سے کہیں زیادہ بڑا ہے۔
