پاکستان کے قبائلی علاقوں میں حالیہ دنوں پیش آنے والے مہلک دہشت گردانہ حملوں نے ملک کی داخلی سلامتی پر ایک بار پھر گہرے سوالات اٹھا دیے ہیں۔ خیبرپختونخوا کے مختلف علاقوں میں سیکیورٹی فورسز اور دہشت گردوں کے مابین جھڑپوں میں 45 دہشت گرد مارے گئے، لیکن 19 سپاہیوں کی شہادت نے قوم کو سوگوار کر دیا ہے۔ ان واقعات پر نہ صرف پاکستانی عوام کے دل غم زدہ ہیں، بلکہ عرب و اسلامی دنیا بھی پاکستان کے ساتھ کھڑی دکھائی دے رہی ہے۔
ہفتے کے روز آئی ایس پی آر نے اعلان کیا کہ جنوبی وزیرستان میں ایک کارروائی کے دوران پاکستانی طالبان سے منسلک 13 دہشت گردوں کو ہلاک کر دیا گیا، لیکن 12 جوان بھی مادرِ وطن پر قربان ہو گئے۔ اسی روز ضلع لوئر دیر میں کی گئی ایک انٹیلی جنس بیسڈ کارروائی میں مزید 10 دہشت گرد ہلاک کیے گئے، تاہم اس مقابلے میں 7 مزید سپاہی شہید ہوئے۔
یہ حملے ایسے وقت پر ہوئے جب خطے میں پہلے ہی سیکیورٹی کے حوالے سے غیر یقینی صورتحال پائی جاتی ہے، اور پاکستان متعدد بار افغان طالبان حکومت پر دہشت گردوں کو پناہ دینے اور حملوں میں معاونت کے الزامات لگا چکا ہے۔ اگرچہ طالبان ان الزامات کی تردید کرتے ہیں، لیکن زمینی حقائق کچھ اور ہی کہانی سنا رہے ہیں۔
ان افسوسناک واقعات کے بعد سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، کویت، قطر اور ترکیہ جیسے قریبی دوست ممالک نے فوری ردِ عمل دیا۔ سعودی وزارتِ خارجہ نے شہید جوانوں کے اہلِ خانہ سے گہری تعزیت کرتے ہوئے ان دہشت گردانہ کارروائیوں کی سخت الفاظ میں مذمت کی۔ متحدہ عرب امارات نے کہا کہ وہ دہشت گردی کی ہر شکل کی مخالفت کرتا ہے، خاص طور پر ایسی جو پاکستان کے امن و استحکام کو نقصان پہنچائے۔ کویت نے شہداء کے لیے دعائے مغفرت اور زخمیوں کی جلد صحتیابی کی دعا کے ساتھ پاکستان کے ساتھ مکمل یکجہتی کا اظہار کیا۔
اسی دوران وزیراعظم شہباز شریف نے سی ایم ایچ بنوں کا دورہ کیا جہاں زخمی سپاہیوں سے ملاقات کے دوران انہوں نے ان کے عزم و حوصلے کو سراہا اور پوری قوم کی طرف سے خراجِ تحسین پیش کیا۔ اس موقع پر انہوں نے واضح انداز میں افغان حکومت کو خبردار کیا کہ پاکستان یادہشت گرد!
یہ بیان پاکستان کی خارجہ پالیسی میں ایک نیا موڑ ہو سکتا ہے، جس سے افغانستان کے ساتھ تعلقات مزید کشیدہ ہونے کا خدشہ بھی پیدا ہو گیا ہے۔
پاکستانی قوم اس وقت ایک بار پھر آزمائش سے گزر رہی ہے۔ مگر اس بار فرق یہ ہے کہ بین الاقوامی اور علاقائی سطح پر پاکستان کے حق میں جو آوازیں بلند ہوئی ہیں، وہ صرف تعزیت کی نہیں بلکہ اتحاد، حمایت اور اقدام کی بھی ہیں۔
دفاعی تجزیہ کاروں کےمطابق یہ واقعات نہ صرف پاکستان کی داخلی سلامتی کے لیے خطرے کی گھنٹی ہیں بلکہ یہ خطے میں دہشت گردی کی نئی لہر کا پیش خیمہ بھی ہو سکتے ہیں۔ پاکستان کو نہ صرف میدانِ جنگ میں، بلکہ سفارتی محاذ پر بھی بھرپور تیاری کے ساتھ کھڑا ہونا ہوگا۔
