پاکستان اور سعودی عرب کے مابین طے پانے والا تاریخی دفاعی معاہدہ نہ صرف عالمی اور قومی میڈیا کی زینت بنا ہوا ہے بلکہ سوشل میڈیا پر بھی صارفین اس معاہدے کو ایک شاندار سنگ میل قرار دے رہے ہیں۔ اس معاہدے کے تحت دونوں ممالک بیرونی جارح کے خلاف ایک ہی صف میں کھڑے ہوں گے، اور کسی ایک ملک کی سلامتی پر حملہ دوسرے ملک پر حملہ تصور کیا جائے گا، جو علاقائی دفاع اور سلامتی میں ایک نئی جہت کا آغاز ہے۔
یہ معاہدہ نہ صرف دونوں اسلامی برادر ممالک کے تعلقات کو بلند پایہ سطح پر لے گیا ہے بلکہ پاکستان کی خطے میں بڑھتی ہوئی سیاسی اور دفاعی اہمیت کو بھی نمایاں کیا ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس معاہدے سے پاکستان کا عالمی دفاعی کردار مزید مستحکم ہوگا، جبکہ سعودی عرب کو بھی اپنی دفاعی صلاحیتوں کے لیے ایک مضبوط اور قابلِ اعتماد پارٹنر مل گیا ہے۔
پاکستان کے وفاقی وزیر مشاہد حسین سید نے واضح کیا ہے کہ بھارت کو اس معاہدے کے بارے میں علم نہیں تھا اور یہ اس کے لیے ایک سرپرائز ہے۔ مشاہد حسین کا کہنا تھا کہ بھارت اور اسرائیل کی طرف سے پاکستان اور سعودی عرب کی اس دفاعی شراکت داری کو لے کر خاصی تشویش پائی جاتی ہے، کیونکہ یہ معاہدہ خطے میں طاقت کے توازن کو بدل سکتا ہے۔
سوشل میڈیا صارفین کے درمیان بحث جاری ہے کہ پاکستان کے ساتھ اس قسم کے دفاعی معاہدے کے امکانات دیگر اہم عرب ممالک، خصوصاً متحدہ عرب امارات اور قطر کے ساتھ بھی زیر غور ہیں۔ اگر یہ معاہدے عملی شکل اختیار کرتے ہیں تو پورے خطے میں دفاعی تعاون کا ایک وسیع نیٹ ورک قائم ہو سکتا ہے، جو عالمی طاقتوں کے لیے بھی ایک چیلنج ثابت ہوگا۔
پاکستان نہ صرف اسلامی دنیا کی واحد ایٹمی طاقت ہے بلکہ خطے کی ایک مضبوط دفاعی قوت بھی ہے۔ گزشتہ مئی میں بھارت کی جارحیت کا پاکستان نے موثر جواب دے کر اپنی دفاعی برتری کا عملی مظاہرہ کیا، جس نے عالمی سطح پر اس کی دفاعی صلاحیتوں کو سراہا گیا۔ دوسری جانب بھارت نے اس معاہدے کے حوالے سے محتاط رویہ اختیار کیا ہے۔
بھارتی وزارتِ خارجہ کے ترجمان رندھیر جیسوال نے کہا ہے کہ حکومت اس معاہدے کے ممکنہ اثرات کا بغور جائزہ لے گی تاکہ قومی سلامتی، خطے اور عالمی استحکام پر پڑنے والے اثرات کو سمجھا جا سکے۔ بھارت نے خطے میں اپنی سلامتی کو مقدم قرار دیتے ہوئے معاہدے کے تمام پہلوؤں پر نظر رکھنے کا عندیہ دیا ہے
