امریکا نے ایک مرتبہ پھر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں غزہ جنگ بندی اور انسانی امداد کی ترسیل پر پابندی ختم کرنے سے متعلق قرارداد ویٹو کر دی ہے۔ یہ چھٹی بار ہے کہ امریکا نے اسرائیل کے حق میں اپنا ویٹو پاور استعمال کرتے ہوئے عالمی برادری کی جانب سے پیش کی جانے والی امن کی کوششوں کو ناکام بنایا ہے۔
غیرملکی نیوزکے مطابق سلامتی کونسل کے 15 میں سے 10 غیر مستقل رکن ممالک نے یہ قرارداد مشترکہ طور پر پیش کی تھی جبکہ ووٹنگ میں 14 ممالک نے اس کے حق میں ووٹ دیا۔ قرارداد کے متن میں غزہ میں بگڑتی ہوئی انسانی صورتحال پر گہری تشویش کا اظہار کیا گیا تھا، قحط اور بھوک کو بطور جنگی ہتھیار استعمال کرنے کی مذمت کی گئی تھی اور اسرائیلی فوجی کارروائیوں میں مسلسل توسیع پر بھی سوالات اٹھائے گئے تھے۔
امریکا نے اپنے مؤقف میں کہا کہ قرارداد امن مذاکرات کو نقصان پہنچا سکتی ہے، اسرائیل کے دفاع کے حق کو متاثر کرے گی اور حماس کے خلاف کارروائیوں کو محدود کر دے گی۔ اقوام متحدہ میں امریکا کی نمائندہ مورگن آرٹاگس نے اپنے خطاب میں کہا کہ یہ قرارداد حماس کی مذمت کرنے اور اسرائیل کے دفاعی حق کو تسلیم کرنے میں ناکام رہی، اس لیے امریکا کو اسے ویٹو کرنا پڑا۔
قرارداد میں تین بڑے مطالبات شامل تھے: فوری، غیر مشروط اور مستقل جنگ بندی جس پر تمام فریقین عمل کریں، حماس اور دیگر گروہوں کے قبضے سے تمام یرغمالیوں کی فوری رہائی، اور غزہ میں انسانی امداد کی ترسیل پر اسرائیلی پابندیوں کا خاتمہ۔
ناقدین کا کہنا ہے کہ امریکا بار بار ویٹو پاور استعمال کر کے اسرائیل کو عالمی احتساب سے بچا رہا ہے، جس سے نہ صرف سلامتی کونسل کی ساکھ متاثر ہو رہی ہے بلکہ غزہ میں انسانی بحران بھی شدت اختیار کر رہا ہے۔ یاد رہے کہ امریکا اس سے قبل بھی پانچ مرتبہ جنگ بندی کی قراردادوں کو ویٹو کرچکا ہے، جس پر عالمی سطح پر شدید تنقید کی جا رہی ہے۔
