پاکستان اور سعودی عرب کو اسلامی دنیا میں ایک کلیدی حیثیت حاصل ہے۔ پاکستان کو اللہ تعالیٰ نے قدرتی وسائل کے ساتھ لاتعداد نعمتوں سے نوازا ہے۔ افرادی قوت میں بھی یہ خودکفیل ملک ہے، جہاں ایک مزدور سے لے کر ایٹمی سائنس دان تک موجود ہیں، وللہ الحمد۔جبکہ سعودی عرب میں پوری دنیا اسلام کے عظیم الشان مراکز مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ ہیں، جو مسلمانوں کے لیے قبلہ اور دوسری طرف نبی کریم ﷺ کی قائم کردہ مسجد اور آپ ﷺ کی آخری آرام گاہ "روضۂ اطہر” کی موجودگی کی وجہ سے مرکزیت رکھتے ہیں۔ وہاں سعودی عرب کو اللہ تعالیٰ نے تیل کی دولت سے مالامال کیا ہے، جس کی وجہ سے اس کی معیشت بہت زیادہ مستحکم ہے۔جغرافیائی طور پر بھی دونوں ممالک کی بہت اہمیت ہے۔ عقائد کے اعتبار سے بھی دونوں ملک ایک صفحے پر ہیں۔
پاکستان کے سعودی عرب کے ساتھ تعلقات نئے نہیں ہیں۔ قیامِ پاکستان کے ساتھ ہی یہ تعلقات مستحکم ہو گئے تھے اور مختلف شعبوں میں باہمی تعاون کے معاہدے ہو چکے ہیں، جن پر بڑی ذمہ داری سے عمل ہو رہا ہے۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ یہ برادرانہ تعلقات مزید مضبوط ہو رہے ہیں۔سعودی عرب کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس نے ہر مشکل وقت میں پاکستان کی مدد کی۔ چاہے وہ مالی ضرورت ہو، تیل کی، دفاعی ضرورت ہو یا خارجہ امور، سعودیہ ہر میدان میں پاکستان کا پارٹنر رہا ہے۔
ہر باخبر شخص کے علم میں ہے کہ دنیا میں بڑی تیزی سے سیاسی و دفاعی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔ تمام دنیا اپنے اپنے مفادات کا بھرپور تحفظ کر رہی ہے۔ اپنے ممالک کی جغرافیائی اور داخلی امن کو برقرار رکھنے کے لیے اسے پورا حق اور اختیار حاصل ہے کہ وہ کسی دوسرے ملک سے کوئی معاہدہ کر لے۔ بین الاقوامی قوانین بھی اس کی اجازت دیتے ہیں۔
اسی تناظر میں پاک سعودی تاریخی دفاعی معاہدہ طے پا گیا ہے۔ ہم نہایت مسرت اور انبساط کے ساتھ اس شاندار اور عدیم المثال معاہدے پر اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہیں۔ خوشی اور شادمانی کے اس موقع پر ہم دونوں ملکوں کی اعلیٰ اور بیدار مغز قیادت کو مبارکباد پیش کرتے ہوئے ان کی بلند پایہ سوچ کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں۔ انہوں نے وقت کے تقاضوں کو سامنے رکھ کر نہایت ذمہ داری کا ثبوت دیا۔اگرچہ یہ معاہدہ بہت پہلے ہو جانا چاہیے تھا، لیکن اب بھی "دیر آید درست آید” کے مصداق دونوں ممالک کے مفاد میں ہے، جسے دونوں ملکوں کے عوام نے ہر سطح پر بے حد سراہا ہے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ اس معاہدے کے درست نتائج برآمد ہوں گے۔
ذیل میں ہم اس اہم دفاعی معاہدے کے چند نکات پیش کر رہے ہیں:
1۔ اس باوقار معاہدے کو Strategic Mutual Defense Agreement کہا گیا ہے۔ اس معاہدے کی اہم ترین شق یہ ہے کہ اگر کسی ایک ملک پر حملہ کیا جائے تو اسے دونوں پر حملہ سمجھا جائے گا۔ اس سے دفاعی تعاون مستحکم ہو جائے گا۔
2۔ ماضی میں بھی پاک سعودی عسکری تربیت کے معاہدے ہوئے، لیکن یہ نیا معاہدہ اس تعاون کو قانونی تحفظ فراہم کرتا ہے۔
3۔ اس معاہدے کے تحت دونوں ممالک یک جان اور دو قالب کی شکل اختیار کر کے مزید مالی تعاون، سرمایہ کاری اور جدید عسکری مہارت میں اضافہ کریں گے۔
4۔ اسی معاہدے کی روشنی میں تمام اسلامی ممالک کو امتِ واحدہ بننے کی عملی صورت پیدا ہوگی۔
5۔ اس معاہدے سے مشرقِ وسطیٰ کے دیگر ممالک کو سیاسی و جغرافیائی تحفظ بھی حاصل ہوگا۔ امید ہے وہ بھی جلد اس معاہدے میں شامل ہو جائیں گے۔
6۔ اس معاہدے کی ایک اہم بات یہ بھی ہوگی کہ وہ ممالک جو پاکستان میں دہشت گردی کے سہولت کار ہیں، انہیں لگام ڈالنے میں مدد ملے گی۔ کیونکہ سعودیہ کی بھارت میں بھاری سرمایہ کاری ہے، جبکہ افغانستان کے ساتھ بھی اخلاقی و مالی تعاون موجود ہے۔ امید ہے سعودیہ انہیں تنبیہ جاری کرے گا۔
اس دفاعی شراکت داری میں جہاں بنیادی کردار وزیراعظم میاں شہباز شریف اور آرمی چیف جنرل عاصم منیر کے ساتھ سعودی ولی عہد و وزیراعظم امیر محمد بن سلمان آل سعود کا ہے، وہاں پاکستان میں موجود سعودی سفیر عزت مآب جناب نواف بن سعید احمد المالکی کا کردار بھی قابلِ قدر ہے۔ وہ پاکستان سے بے پناہ محبت کرتے ہیں اور عر صۂ دراز سے پاکستان کے مفادات کا تحفظ کر رہے ہیں۔
