نیویارک :اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے جاری سالانہ اجلاس کے موقع پر بین الاقوامی سطح پر دو ریاستی حل کو عملی جامہ پہنانے کے لیے قائم خصوصی اتحاد نے ایک اہم وزارتی اجلاس منعقد کیا۔ اس اجلاس میں نہ صرف اعلانِ نیویارک کی توثیق کی گئی بلکہ فلسطین کو ریاست کے طور پر تسلیم کرنے کے بڑھتے ہوئے عالمی رجحان پر بھی بھرپور تبادلہ خیال کیا گیا۔
اجلاس میں پیش کیے گئے "اعلانِ نیویارک” نے واضح کر دیا کہ غزہ اور مغربی کنارہ ایک ہی فلسطینی سرزمین کا حصہ ہیں، اور اسرائیل کی جانب سے زمینی حقائق کو یک طرفہ طور پر تبدیل کرنے کی تمام کوششیں ناقابلِ قبول ہیں۔
اس موقع پر سعودی وزیرِ خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان نے دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ اس اعلان سے دنیا کو پیغام ملتا ہے کہ فلسطینی ریاست کے قیام کی حمایت صرف بیانیہ نہیں بلکہ ایک عملی ذمہ داری ہے۔ اسرائیلی قبضہ نسل کشی، قحط اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا باعث بن رہا ہے، جسے روکنا ہوگا۔
شہزادہ فیصل نے مزید کہا کہ سعودی عرب فلسطینی عوام کے جبری انخلا کی سختی سے مخالفت کرتا ہے اور اسرائیل کی مسلط کردہ کسی بھی نئی حقیقت کو تسلیم نہیں کرتا۔ ان کا کہنا تھا کہ ریاض نہ صرف غزہ کی تعمیرِ نو کے لیے عرب و اسلامی منصوبے کی حمایت کرتا ہے بلکہ فلسطینی اتھارٹی کی اصلاح کے لیے بھی سنجیدہ ہے، چاہے حالات کتنے ہی کٹھن کیوں نہ ہوں۔
فلسطینی وزیرِاعظم محمد مصطفیٰ نے اجلاس میں اپنے خطاب کے دوران کہا کہ فلسطین کو ریاست تسلیم کیے جانے کی عالمی لہر حوصلہ افزا ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ جنگ بندی فوری ترجیح ہونی چاہیے۔فلسطینی بچوں کو اس جہنم سے نکالنا صرف فلسطینیوں کا نہیں، پوری دنیا کا انسانی فریضہ ہے۔
سعودی عرب اورفرانس نے اجلاس کی مشترکہ صدارت کرتے ہوئے عالمی برادری پر زور دیا کہ اب صرف بیانات کافی نہیں، عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔ دونوں ممالک نے کہا کہ اگر مزید ممالک فلسطینی ریاست کو تسلیم کریں تو غزہ کی جنگ ختم کرنے میں مدد ملے گی۔ ہم عالمی امن کے لیے کام کرنے والے تمام ممالک کے ساتھ شراکت داری جاری رکھیں گے۔
سعودی عرب نے دو ریاستی حل کی مکمل حمایت کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ مشرقی بیت المقدس کو دارالحکومت بنا کر 1967 کی سرحدوں کے مطابق ایک آزاد فلسطینی ریاست کا قیام ضروری ہے۔ اس مؤقف نے عرب اور اسلامی دنیا کے جذبات کی مؤثر ترجمانی کی اور عالمی سطح پر ایک نئے سیاسی بیانیے کو جنم دیا۔
