امریکہ کے ایوانِ صدر، جسے دنیا بھر میں وائٹ ہاؤس کے نام سے جانا جاتا ہے، ہمیشہ سے امریکی تاریخ اور صدور کی یادگار حیثیت رکھتا آیا ہے۔
وہاں کی دیواروں پر لٹکی ہوئی تصویریں، تاریخی اشیاء اور تزئین و آرائش محض خوبصورتی نہیں بلکہ ایک علامتی پیغام بھی دیتی ہیں۔ حال ہی میں سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے مخصوص انداز میں وائٹ ہاؤس کی سجاوٹ میں تبدیلیاں کراتے ہوئے ایک نیا منصوبہ متعارف کرایا ہے جسے انہوں نے "صدارتی فیم واک” کا نام دیا۔
اس نئی آرائش کے تحت وائٹ ہاؤس کی مغربی راہداری کو ایک گیلری کی شکل دے دی گئی ہے، جہاں امریکی تاریخ کے تمام صدور کی تصاویر آویزاں کی گئی ہیں۔ یہ گیلری ایک طرح سے امریکہ کے قیام سے لے کر آج تک کی قیادت کا بصری ریکارڈ پیش کرتی ہے۔ مگر اس منصوبے میں ایک پہلو ایسا ہے جس نے سیاسی اور عوامی حلقوں میں شدید بحث چھیڑ دی ہے۔
صدر جو بائیڈن کی روایتی تصویر لگانے کے بجائے وہاں ایک خودکار دستخطی مشین (Autopen) کا تصویری خاکہ نصب کیا گیا ہے۔ یہ وہی ٹیکنالوجی ہے جسے بائیڈن پر اکثر تنقید کے طور پر استعمال کیا جاتا رہا ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے اس تبدیلی کو باضابطہ طور پر اس لیے متعارف کرایا تاکہ اپنے پیش رو کی صدارت کے دوران اس آلے پر انحصار کو طنزیہ انداز میں نمایاں کیا جا سکے۔ یوں ایک سابق صدر کی نمائندگی کو ایک علامتی چوٹ کے ذریعے پیش کیا گیا ہے۔
اخباری رپورٹس، بالخصوص نیویارک پوسٹ، کے مطابق اس راہداری میں امریکہ کے 45 صدور کی تصاویر شامل ہیں۔ لیکن صدر بائیڈن کو اس فہرست میں "خودکار دستخطی مشین” سے بدل دینا ایک ایسا اقدام ہے جسے بہت سے مبصرین سیاسی طنز اور ذاتی مخالفت کی کڑی قرار دے رہے ہیں۔ ٹرمپ اپنے حریف پر بارہا یہ اعتراض کرتے رہے ہیں کہ وہ سرکاری خطوط اور اہم فیصلوں پر خود دستخط کرنے کے بجائے اس مشین کا سہارا لیتے ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ قانونی ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ اگر کسی دستخطی مشین سے کیے گئے دستخط باضابطہ اجازت کے ساتھ ہوں تو وہ قانونی حیثیت رکھتے ہیں۔ تاہم ناقدین کا کہنا ہے کہ اس طریقہ کار کے استعمال نے صدر بائیڈن کی قیادت پر ایک منفی تاثر چھوڑا اور سیاسی مخالفین کے لیے یہ اس بات کا بہانہ بنا کہ صدر اہم مواقع پر ذاتی طور پر موجود نہیں ہوتے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کا یہ منصوبہ صرف اسی راہداری تک محدود نہیں ہے۔ ان کے ایما پر وائٹ ہاؤس کے مختلف حصوں میں تبدیلیاں کی جا رہی ہیں۔ اوول آفس سے لے کر رہائشی حصوں اور باغیچوں تک ہر جگہ ان کی ذاتی پسند کی جھلک نظر آ رہی ہے۔ یہ اقدامات ان کے دورِ صدارت کی بصری شناخت کے طور پر دیکھے جا رہے ہیں، لیکن اس پر رائے منقسم ہے۔
حامیوں کا کہنا ہے کہ یہ ترامیم ٹرمپ کی انفرادی پسند کو ظاہر کرتی ہیں اور وائٹ ہاؤس میں ایک نیا اور منفرد رنگ بھرتی ہیں۔ دوسری جانب مخالفین اسے تاریخ کے ایک معتبر ادارے پر غیر ضروری ذاتی رنگ چڑھانے کے مترادف سمجھتے ہیں۔ ان کے بقول، وائٹ ہاؤس محض ایک رہائش گاہ نہیں بلکہ امریکی عوام کی ملکیت ہے، اس لیے اسے سیاسی طنز یا ذاتی انا کی نمائش کا ذریعہ نہیں بنایا جانا چاہیے۔
ایوانِ صدر کے سابق فوٹوگرافر پیٹ سوزا نے بھی کھلے عام اس فیصلے پر اعتراض کیا۔ ان کے مطابق وائٹ ہاؤس ایک علامت ہے جو اتحاد، تاریخ اور عوامی نمائندگی کی نمائندگی کرتا ہے۔ اس کی دیواروں کو ذاتی مخالفت کے پیغامات دینے کے لیے استعمال کرنا نہ صرف اس ادارے کی وقعت کو کم کرتا ہے بلکہ امریکی عوام کے اعتماد کو بھی ٹھیس پہنچاتا ہے۔ ان کے الفاظ میں: "یہ عمارت امریکی عوام کی ملکیت ہے، نہ کہ ذاتی طنز و تمسخر کا کینوس۔”
ڈونلڈ ٹرمپ کے "صدارتی فیم واک” منصوبے نے ایک جانب وائٹ ہاؤس کو ایک نئی سجاوٹ فراہم کی ہے لیکن دوسری جانب سیاسی میدان میں ایک نیا تنازع بھی کھڑا کر دیا ہے۔
