پاکستان اور چین کے درمیان زرعی شعبے میں تعاون کی ایک نئی جہت سامنے آئی ہے، جس کے تحت ٹماٹر کی کاشت میں کیمیائی زہروں کے استعمال کو کم کرنے کے لیے ماحول دوست طریقے آزمانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
اس مشترکہ منصوبے کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ ٹماٹر کی پیداوار کو نقصان پہنچائے بغیر کھاد اور کیڑے مار ادویات پر انحصار کم کیا جائے اور زمین کی زرخیزی کے ساتھ ساتھ جیو تنوع (Biodiversity) کو بھی بہتر بنایا جا سکے۔
یہ تجرباتی منصوبہ ضلع سرگودھا کے علاقے چک نمبر 48 شمالی برانچ میں کیا گیا جہاں یونیورسٹی آف ایگریکلچر فیصل آباد (UAF) اور چینی ادارہ یونیورسٹی آف یونان نے براہِ راست نگرانی کی۔ منصوبہ دراصل یونان فروٹ ویجیٹیبل فلاور انٹیگریٹڈ پیسٹ مینجمنٹ انٹرنیشنل جوائنٹ لیب کے تحت چلایا گیا، جس میں دونوں ممالک کے ماہرین اور محققین شامل تھے۔
ان تجربات میں ایک جدید طریقہ کار، جسے “3MP سسٹم” یعنی ملٹی ڈائمنشنل مینجمنٹ آف ملٹی پل پیسٹس کہا جاتا ہے، آزمایا گیا۔ اس نظام میں کئی پہلوؤں کو یکجا کیا گیا، مثلاً کھاد کی بہتر فراہمی کے ذریعے پودے کی قدرتی مدافعت کو مضبوط بنایا گیا، ساتھ ہی ایسے اضافی پودے لگائے گئے جو نقصان دہ کیڑوں کو اپنی طرف متوجہ کر لیں تاکہ ٹماٹر محفوظ رہیں۔
اس مقصد کے لیے تل (Sesamum indicum) کو ’’ٹریپ کراپ‘‘ کے طور پر لگایا گیا جبکہ وربینا (Verbena hybrida) کاشت کی گئی تاکہ اس کے پھولوں کا رس ان مفید کیڑوں کے لیے غذا بن سکے جو نقصان دہ کیڑوں کو ختم کرتے ہیں۔
تحقیق کے نتائج حیران کن رہے۔ اس طریقہ کار کے استعمال سے کیمیائی زہروں کا استعمال 40 فیصد سے زیادہ کم ہو گیا، لیکن پیداوار پر کوئی منفی اثر نہیں پڑا۔ بعض جگہوں پر تو روایتی کاشتکاروں کے مقابلے میں ٹماٹر کی فصل میں معمولی اضافہ بھی دیکھنے کو ملا۔ اس کے ساتھ ساتھ پھل کے معیار میں بہتری، زمین کی صحت میں اضافہ، کھیتوں میں جیو تنوع میں وسعت اور ماحولیاتی آلودگی خصوصاً گرین ہاؤس گیسز کے اخراج میں کمی بھی ریکارڈ کی گئی۔
پاکستانی زرعی سائنسدان ڈاکٹر عابد علی نے اس موقع پر وضاحت کی کہ پاکستان میں اکثر کسان باضابطہ طور پر تجویز کردہ ادویات کی عدم دستیابی کے باعث غیر معیاری اور غیر قانونی کیمیائی اسپرے استعمال کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں، جو زمین اور انسانی صحت دونوں کے لیے خطرناک ثابت ہوتے ہیں۔ ان کے مطابق 3MP سسٹم اس مسئلے کا ایک محفوظ اور پائیدار حل پیش کرتا ہے۔
اسی طرح چینی سائنسدان ڈاکٹر ہان پینگ نے کہا کہ سرگودھا میں کیے گئے یہ تجربات اس بات کا واضح ثبوت ہیں کہ اگر ٹریپ کراپس، نیچر پلانٹس اور بہتر کھادوں کو ملا کر استعمال کیا جائے تو بغیر ضرورت سے زیادہ زہر چھڑکے فصل کو کیڑوں سے محفوظ رکھا جا سکتا ہے۔
اس منصوبے میں پاکستانی محققین بھی براہِ راست شامل رہے۔ پی ایچ ڈی اسکالرز جناب جواد حسن اور محترمہ ثناء انجم نے کھیتوں میں ہونے والے ان تجربات کو عملی طور پر سرانجام دینے میں اہم کردار ادا کیا۔
یہ تعاون 2023 میں شروع ہوا تھا اور اب یہ نظام نہ صرف پاکستان بلکہ چین، ویتنام، تھائی لینڈ اور یورپ کے مختلف علاقوں میں بھی آزمایا جا رہا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ مستقبل میں کسانوں اور زرعی افسران کے لیے ورکشاپس اور تربیتی پروگرام بھی ترتیب دیے جائیں گے تاکہ زیادہ سے زیادہ کاشتکار اس نئے طریقہ کار کو اپنائیں اور پاکستان میں ٹماٹر کی کاشت کو محفوظ اور ماحول دوست بنایا جا سکے۔
یہ شراکت داری نہ صرف ایک زرعی تحقیق ہے بلکہ پاکستان اور چین کے درمیان سائنسی تعاون کا ایک اور روشن باب ہے جو پائیدار زرعی ترقی کی طرف اہم قدم ثابت ہو سکتا ہے۔
