آج پاکستان نے چین، روس، اور ایران کے ساتھ مل کر افغانستان میں امن و استحکام کے لیے اپنی مضبوط وابستگی کو دوبارہ دہرایا۔ اس موقع پر شریک ممالک نے افغانستان میں دہشت گرد گروہوں کی موجودگی پر بھی گہری تشویش ظاہر کی۔
یہ اہم اجلاس ماسکو میں منعقد ہوا اور یہ چار ملکی میٹنگ موسکو فارمیٹ پر مبنی تھی، جو افغانستان کے حوالے سے علاقائی تعاون اور سیاسی بات چیت کا ایک مرکزی فورم بن چکی ہے۔
یہ اجلاس ساتویں ماسکو فارمیٹ مشاورتی اجلاس کے پس منظر میں ہوا، جس کا بنیادی مقصد افغانستان میں سیاسی، سماجی، اور حفاظتی چیلنجز کے حوالے سے باہمی تعاون کو فروغ دینا ہے۔ ماسکو فارمیٹ نے اس خطے کے اہم ممالک کو ایک پلیٹ فارم فراہم کیا ہے، جس میں بھارت، قزاقستان، کرغزستان، تاجکستان، ترکمانستان، ازبکستان اور دیگر اہم شرکاء شامل ہیں، تاکہ افغانستان کے استحکام اور خطے میں سلامتی کے امور پر بات چیت کی جا سکے۔ مقامی ذرائع کے مطابق آج ہونے والا اجلاس انہی ممالک کے نمائندوں کی شمولیت سے ہوگا، جس میں افغانستان کی داخلی صورتحال اور خطے کے دیگر ممالک پر اس کے اثرات زیر بحث آئیں گے۔
پاکستان کے خصوصی ایلچی برائے افغانستان، محمد صادق خان، جو اس وقت ماسکو میں موجود ہیں، نے سوشل میڈیا پر اجلاس کی تفصیلات بتائیں۔ انہوں نے کہا کہ چاروں ممالک نے اتفاق رائے سے ایک خودمختار، مستحکم اور پرامن افغانستان کے قیام کے لیے اپنی وابستگی کا اعادہ کیا اور زور دیا کہ دہشت گردی اور بیرونی مداخلت سے آزاد افغانستان خطے کی سلامتی کے لیے ناگزیر ہے۔ شرکاء نے اس بات پر بھی اتفاق کیا کہ افغانستان میں امن اور ترقی کے لیے باہمی تعاون، مشترکہ حکمت عملی اور جامع اقدامات کی ضرورت ہے تاکہ انتہا پسندی کے خطرات سے نمٹا جا سکے۔
اجلاس میں افغانستان میں سرگرم دہشت گرد گروہوں کے خطرات پر بھی وسیع تبادلہ خیال کیا گیا۔ شرکاء نے فیصلہ کیا کہ مشترکہ نگرانی، انٹیلیجنس شیئرنگ، اور حدود پار تعاون کے ذریعے دہشت گردی کی روک تھام کے عملی اقدامات کیے جائیں۔ اجلاس میں یہ بھی واضح کیا گیا کہ شریک ممالک دہشت گردی کے خاتمے کے لیے باہمی اور مربوط اقدامات کرنے کے پابند ہیں، اور یہ تمام کوششیں قابلِ عمل اور شفاف ہونی چاہئیں۔
چار ملکی اجلاس کے علاوہ، صادق خان نے چین اور ایران کے نمائندوں کے ساتھ علیحدہ ملاقاتیں بھی کیں تاکہ علاقائی سلامتی کے طریقہ کار اور مشترکہ اقدامات کو مضبوط بنایا جا سکے۔ ایران کے وزیر خارجہ کے نمائندے محمد رضا بہرامی کے ساتھ ملاقات میں انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ مشترکہ چیلنجز کو حل کرنے کے لیے مسلسل مکالمہ اور تعاون ناگزیر ہے۔ دونوں جانب سے اس بات پر اتفاق ہوا کہ دہشت گردی، انسانی بحران اور افغان عوام کے تحفظ کے لیے مربوط اقدامات ضروری ہیں۔ اس کے علاوہ باہمی تعاون کے ذریعے خطے میں امن و استحکام کو فروغ دینے کی بھی اہمیت پر زور دیا گیا۔
اسی طرح، چین کے نمائندے یوے ژیاؤ یانگ کے ساتھ ملاقات میں پاکستان اور چین نے خطے میں دیرپا امن و استحکام کے فروغ کے لیے ہم آہنگ حکمت عملی اپنانے کی ضرورت پر زور دیا۔ دونوں ممالک نے باہمی تعاون، معاشی ترقی، اور سیاسی ہم آہنگی کے لیے اپنے عزم کا اعادہ کیا۔ صادق خان نے اس بات پر بھی روشنی ڈالی کہ پاکستان اور چین کا تعلق خطے میں دیگر ممالک کے ساتھ مشترکہ مسائل کے حل اور ترقیاتی منصوبوں میں ایک مضبوط ستون کی حیثیت رکھتا ہے۔
روس کے نمائندے، زمیر کابلوف کے ساتھ ملاقات میں بھی خطے میں تعاون بڑھانے کے لیے اقدامات زیر بحث آئے، خاص طور پر سیاسی استحکام، دہشت گردی کے خاتمے اور اقتصادی ترقی کے شعبوں میں۔ یہ ملاقات ماسکو اور اسلام آباد کے درمیان مستقل بات چیت کی ضرورت کو اجاگر کرتی ہے تاکہ افغانستان کے پیچیدہ چیلنجز سے نمٹنے کے لیے مربوط حکمت عملی وضع کی جا سکے۔
افغانستان کی نمائندگی اس اجلاس میں وزیر خارجہ، امیر خان مطاقی کر رہے ہیں، جو پیر کو ماسکو پہنچے۔ یہ پہلی بار ہے کہ افغانستان کے وزیر خارجہ ماسکو فارمیٹ مشاورتی اجلاس میں باضابطہ رکن کی حیثیت سے شریک ہو رہے ہیں، جو اس فورم کی شمولیت اور افغان خودمختاری کی اہمیت کو ظاہر کرتا ہے۔ افغان نائب ترجمان حافظ ضیا تکّل کے مطابق، مطاقی افغانستان کے موقف کو پیش کریں گے کہ کس طرح علاقائی ممالک کے ساتھ تعلقات مضبوط کیے جائیں اور روسی وزیر خارجہ سیرگئی لاوروف کے ساتھ علیحدہ ملاقات میں سیاسی مصالحت، اقتصادی تعاون، منشیات کے خلاف اقدامات، اور دہشت گردی کے تدارک پر تبادلہ خیال کیا جائے گا۔
ماسکو فارمیٹ نے ہمیشہ زور دیا ہے کہ افغانستان کو اپنے بین الاقوامی وعدے پورے کرنے چاہئیں، خاص طور پر دہشت گرد گروہوں کے خاتمے اور سرحد پار حملوں کی روک تھام کے حوالے سے۔ پاکستان، جو اس فورم کا حصہ 2016 سے ہے، ہمیشہ متوازن حکمت عملی کی وکالت کرتا آیا ہے، جو سکیورٹی، انسانی امداد اور علاقائی تعاون کو اہمیت دیتی ہے۔
اس اجلاس کے دوران افغانستان میں انسانی مسائل، بشمول آبادی کے بنیادی انسانی اور سماجی ضروریات، پر بھی توجہ دی گئی۔ شرکاء نے اس بات پر زور دیا کہ خطے میں پائیداری اور امن کے قیام کے لیے افغان عوام کی فلاح و بہبود ناگزیر ہے۔ تعاون کے یہ اقدامات نہ صرف افغانستان بلکہ پڑوسی ممالک میں بھی استحکام کو فروغ دیں گے۔
پاکستان کی فعال شرکت اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ وہ افغانستان میں امن قائم کرنے میں ایک ذمہ دار علاقائی کھلاڑی ہے۔ چین، روس اور ایران کے ساتھ مربوط اقدامات کے ذریعے پاکستان کا مقصد افغانستان میں دہشت گردوں کے پھیلاؤ کو روکنا اور سیاسی، اقتصادی اور سماجی ترقی کے مواقع کو فروغ دینا ہے۔
مجموعی طور پر، ماسکو فارمیٹ مشاورتی اجلاس افغانستان کے حوالے سے خطے کے ممالک کے درمیان مذاکرات اور تعاون کا ایک اہم پلیٹ فارم ہے۔ آج ہونے والے اجلاس میں افغانستان کی خودمختاری، امن اور استحکام کے لیے اقدامات پر زور دیا جائے گا، اور دہشت گردی کے خلاف باہمی حکمت عملی کے منصوبے وضع کیے جائیں گے۔ افغانستان کے وزیر خارجہ کی باضابطہ شرکت اس بات کا مظہر ہے کہ افغان خود مختاری اور قیادت کو بھی اس عمل میں شامل کیا جا رہا ہے، تاکہ خطے میں دیرپا امن، ترقی اور استحکام ممکن بنایا جا سکے۔
