اوسلو: نوبیل امن انعام 2025 کے حقدار کا اعلان آج کیا جائے گا، اور دنیا بھر کی نظریں اس وقت امریکہ کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ پر مرکوز ہیں، جو اس ایوارڈ کے لیے سب سے بڑے امیدوار سمجھے جا رہے ہیں۔ اگر ٹرمپ نوبیل امن انعام حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو وہ یہ اعزاز پانے والے پانچویں امریکی صدر ہوں گے۔ اس سے قبل تھیوڈور روزویلٹ، ووڈرو ولسن، جمی کارٹر اور باراک اوباما نوبیل امن انعام حاصل کر چکے ہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے اپنی صدارت کے دوران دنیا کے مختلف حصوں میں سات جنگیں ختم کرانے میں کردار ادا کیا، جن میں پاک بھارت کشیدگی، اسرائیل اور ایران کا تنازع، مصر، ایتھوپیا، آرمینیا اور آذربائیجان، کمبوڈیا اور تھائی لینڈ، کوسوو اور سربیا، جبکہ کانگو اور روانڈا کے جھگڑے شامل ہیں۔ حال ہی میں میں حماس اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی کے بعد ٹرمپ کا یہ مؤقف مزید مضبوط ہوا ہے کہ انہوں نے عالمی امن کے لیے عملی اقدامات کیے۔
غیر ملکی میڈیا کے مطابق نوبیل امن کمیٹی کی آخری میٹنگ پیر کو ہوئی، جس میں 338 نامزدگیوں پر غور کیا گیا۔ ان نامزد افراد میں عالمی رہنما، انسانی حقوق کے کارکنان، ماحولیاتی تحفظ کے علمبردار اور امن کے علمبردار شامل تھے۔ قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ پاکستان نے سب سے پہلے صدر ٹرمپ کو نوبیل امن انعام کے لیے نامزد کیا تھا، جب انہوں نے پاک بھارت کشیدگی کم کرنے میں ثالثی کی پیشکش کی تھی۔
انعام کے اعلان سے چند گھنٹے قبل ٹرمپ نے ایک بیان میں کہا کہ اگر انہیں نوبیل امن انعام نہیں دیا گیا تو یہ امریکہ کے لیے ایک بہت بڑی توہین ہوگی۔ ان کے حامیوں کا کہنا ہے کہ ٹرمپ نے عالمی امن کے لیے ابراہام معاہدے، غزہ جنگ بندی، اور کووڈ-19 ویکسین کی فوری تیاری جیسے اقدامات کے ذریعے دنیا میں امن اور تعاون کی نئی راہیں کھولیں۔
دوسری جانب ناقدین کا خیال ہے کہ ٹرمپ کے دورِ حکومت میں عالمی سطح پر کئی تنازعات میں شدت بھی آئی، اس لیے ان کا نوبیل امن انعام کا دعویٰ متنازع ہے۔ تاہم اس میں کوئی شک نہیں کہ ان کا ان کی سب سے بڑی کامیابی قرار دیا جا رہا ہے، جس نے انہیں ایک بار پھر عالمی توجہ کا مرکز بنا دیا ہے۔
اب دنیا کی نظریں اوسلو پر جمی ہیں، جہاں چند ہی گھنٹوں میں فیصلہ ہو گا کہ آیا ڈونلڈ ٹرمپ واقعی “امن کے پیامبر” ثابت ہوتے ہیں یا نوبیل کمیٹی کسی اور رہنما کو عالمی امن کا نیا چہرہ قرار دیتی ہے۔
