پنجاب حکومت نے صوبے کے زرعی ڈھانچے کو جدید خطوط پر استوار کرنے کے لیے ایک جامع پروگرام کا آغاز کیا ہے جس کا مقصد صرف جدید مشینری کی فراہمی تک محدود نہیں بلکہ اس کے ذریعے کسانوں کی مالی مشکلات کم کرنا، ماحولیاتی توازن کو بہتر بنانا اور زرعی پیداواریت میں نمایاں اضافہ لانا ہے۔ وزیراعلیٰ مریم نواز شریف کی جانب سے متعارف کرایا گیا "ہائی ٹیک فارم مکینائزیشن فنانسنگ پروگرام پورٹل” اس سلسلے میں ایک تاریخی سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے، جو نہ صرف کسانوں بلکہ زرعی خدمات فراہم کرنے والے اداروں اور متعلقہ کمپنیوں کے لیے بھی امید کی نئی کرن ثابت ہوگا۔
یہ پروگرام پنجاب کے کسانوں کے لیے ایک ایسا نیا باب کھولتا ہے جہاں وہ باآسانی جدید زرعی مشینری حاصل کر سکیں گے۔ اس اسکیم کے تحت ۱۲ اقسام کی اعلیٰ معیار کی زرعی مشینوں کے لیے بلاسود قرضے فراہم کیے جائیں گے جن کی حد ۳۰ لاکھ روپے مقرر کی گئی ہے۔
قرض کی ادائیگی کے لیے چھ ماہ کا رعایتی دورانیہ رکھا گیا ہے، جس کے بعد پانچ سال کی مدت میں سہ ماہی بنیادوں پر قسطوں کے ذریعے ادائیگی کی جا سکے گی۔ اس پورٹل کے ذریعے درخواست کا پورا عمل ڈیجیٹل بنایا گیا ہے تاکہ شفافیت، رفتار اور انصاف کو یقینی بنایا جا سکے۔
وزیراعلیٰ مریم نواز شریف نے اس موقع پر کہا کہ پنجاب کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی زراعت ہے، اور جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کے بغیر ترقی کے اہداف حاصل نہیں کیے جا سکتے۔ انہوں نے کہا کہ اس اسکیم کے نتیجے میں نہ صرف کسانوں کے مالی بوجھ میں کمی آئے گی بلکہ صوبے میں جدید مشینری کے استعمال سے پیداوار کے معیار میں بہتری آئے گی اور مزدوروں کا وقت و توانائی بھی بچے گی۔
یہ پروگرام اس لحاظ سے بھی منفرد ہے کہ اس میں بین الاقوامی سطح پر کئی معروف کمپنیوں نے شمولیت اختیار کی ہے، جن میں چین، ترکی، اٹلی، جاپان، امریکہ، بیلاروس، برازیل اور اسپین کی کمپنیاں شامل ہیں۔ اس اقدام سے نہ صرف ٹیکنالوجی کی منتقلی ممکن ہوگی بلکہ پاکستان کی زرعی صنعت کو عالمی معیار کے آلات تک براہِ راست رسائی حاصل ہوگی۔
زرعی آلات جن پر یہ سہولت دستیاب ہوگی ان میں گندم اور چاول کی کٹائی کرنے والی کمبائن ہارویسٹرز، ملٹی کراپ پلانٹرز، نرسری مشینیں، گندم کے بھوسے کی بیلنگ مشینیں، مکئی کے بھٹے چننے والی مشینیں، سلیج ہارویسٹرز، آرچرڈ پرونرز، ائیر بلاسٹ اسپریئرز، جدید آبپاشی نظام اور ہائی پاور ٹریکٹرز شامل ہیں۔ یہ تمام مشینری کسانوں کے لیے ایک نیا انقلاب ثابت ہوگی جو ماضی میں دستی محنت سے جڑی مشکلات کو کم کرے گی۔
پنجاب حکومت نے اس پروگرام کے لیے بڑے پیمانے پر مالی وسائل مختص کیے ہیں تاکہ یہ اسکیم عملی طور پر کامیاب ہو۔ زرعی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس اقدام سے پنجاب کی زراعت میں ٹیکنالوجی کا وہ دور شروع ہوگا جس سے نہ صرف کسان خود کفیل ہوں گے بلکہ صوبہ زرعی برآمدات میں بھی نمایاں مقام حاصل کرے گا۔
پنجاب حکومت نے ساتھ ہی ماحول دوست اقدامات بھی تیز کر دیے ہیں۔ لاہور ڈویژن کی انتظامیہ کو ہدایت دی گئی ہے کہ موٹر ویز کے اطراف میں فصلوں کی باقیات جلانے پر پابندی کے لیے دفعہ ۱۴۴ نافذ کی جائے کیونکہ یہی عمل موسمِ سرما میں سموگ کی سب سے بڑی وجوہات میں سے ایک ہے۔ کمشنر مریم خان کی زیر صدارت اجلاس میں متعلقہ محکموں کو ہدایت کی گئی کہ وہ سموگ، ڈینگو اور ماحولیاتی آلودگی کے خلاف کارروائیاں مزید سخت کریں۔
ضلعی انتظامیہ نے رپورٹ دی کہ گذشتہ دو ماہ کے دوران دو اینٹوں کے بھٹے مسمار کیے گئے جبکہ چودہ صنعتی اداروں کے خلاف مقدمات درج کیے گئے جو غیر معیاری ایندھن استعمال کر رہے تھے۔ کمشنر نے واضح کیا کہ کچرا جلانے، ٹائر یا کم معیار کے ایندھن کے استعمال پر مکمل پابندی برقرار ہے اور خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف فوری کارروائی کی جائے گی۔
اجلاس میں بتایا گیا کہ لاہور بھر میں ۹۵۸ سڑکوں پر گڑھوں اور خستہ حصوں کی نشاندہی کی گئی ہے اور ان کی مرمت تیزی سے جاری ہے۔ واٹر اینڈ سیوریج ایجنسی نے بھی رپورٹ دی کہ ان کے زیر انتظام ۵۷۴ واٹر فلٹریشن پلانٹس مکمل طور پر فعال ہیں اور روزانہ ہزاروں شہری صاف پانی سے مستفید ہو رہے ہیں۔
یہ تمام اقدامات دراصل ایک مربوط پالیسی کا حصہ ہیں جس کے تحت صوبائی حکومت زراعت، ماحول اور شہری سہولتوں کو یکساں اہمیت دے رہی ہے۔ پنجاب میں زراعت نہ صرف معاشی استحکام کا ذریعہ ہے بلکہ لاکھوں خاندانوں کے روزگار سے براہِ راست جڑی ہوئی ہے۔ ماضی میں جدید ٹیکنالوجی تک رسائی نہ ہونے کے باعث کسان مالی دباؤ اور کم پیداوار کے شکار رہے، لیکن اس اسکیم سے نہ صرف ان کے مالی حالات بہتر ہوں گے بلکہ جدید زرعی علم و مہارت کی فراہمی بھی ممکن ہو گی۔
اگر یہ پروگرام شفافیت، مسلسل تکنیکی معاونت، اور کسانوں کی تربیت کے ساتھ آگے بڑھایا گیا تو اس کے اثرات اگلے چند برسوں میں واضح ہوں گے۔ یہ ممکن ہے کہ پنجاب زرعی خودکفالت کے ساتھ ساتھ جدید زرعی برآمدات کا مرکز بھی بن جائے۔
اس منصوبے کا سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ یہ کسانوں کو محض قرضے نہیں دیتا بلکہ ان کے لیے ترقی کا دروازہ کھولتا ہے۔ جدید مشینری کے ذریعے وقت کی بچت، لاگت میں کمی اور زمین کے بہتر استعمال سے کسانوں کی آمدنی میں اضافہ ہوگا۔ حکومت نے عندیہ دیا ہے کہ اس پروگرام کو آئندہ برسوں میں مزید وسعت دی جائے گی تاکہ ہر ضلع کے کسان اس سے فائدہ اٹھا سکیں۔
یہ اسکیم نہ صرف زراعت کے لیے ایک انقلاب کی شروعات ہے بلکہ پنجاب کے دیہی معیشت کے لیے امید کا نیا پیغام بھی ہے۔
