کراچی میں توانائی کے شعبے میں ایک بڑے معاہدے نے نہ صرف پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان سرمایہ کاری کے نئے دروازے کھول دیے ہیں بلکہ برسوں سے جاری ایک پیچیدہ تنازعے کو بھی خوش اسلوبی سے ختم کر دیا ہے۔ پاکستانی سرمایہ کار شہریار چشتی اور کے-الیکٹرک کے سعودی شیئر ہولڈرز کے درمیان پیدا ہونے والا اختلاف آخرکار ایک نئے سمجھوتے کے ذریعے طے پا گیا ہے، جس کے تحت سعودی سرمایہ کار شہزادہ منصور بن محمد بن سعد آل سعود نے کے ای ایس پاور لمیٹڈ میں اکثریتی حصص حاصل کرنے کے لیے شہریار چشتی کے ساتھ ایک یادداشتِ تفاهم (ایم او یو) پر دستخط کیے ہیں۔
یہی کے ای ایس پاور لمیٹڈ وہ کمپنی ہے جو کے-الیکٹرک میں 66.4 فیصد حصص کی مالک ہے۔ اس تازہ پیش رفت کو پاکستان میں توانائی کے شعبے میں سعودی عرب کی سب سے بڑی سرمایہ کاری قرار دیا جا رہا ہے، جو دونوں ممالک کے درمیان معاشی تعلقات کے ایک نئے دور کا آغاز بھی تصور کی جا رہی ہے۔
ذرائع کے مطابق شہریار چشتی نے کچھ عرصہ قبل کے-الیکٹرک کے حصص خرید کر کمپنی پر کنٹرول حاصل کرنے کی کوشش کی تھی، جس کے نتیجے میں ان اور سعودی سرمایہ کاروں کے درمیان سندھ ہائی کورٹ میں مقدمہ دائر کیا گیا۔ اس تنازعے نے نہ صرف سرمایہ کاری کے ماحول پر اثر ڈالا بلکہ سعودی شراکت داروں کی جانب سے حکومتِ پاکستان کو متعدد مرتبہ شکایات بھی کی گئیں۔ ان کا مطالبہ تھا کہ شہریار چشتی اپنے سرمایہ کے ذرائع واضح کریں جن سے انہوں نے کے-الیکٹرک کے حصص خریدے تھے۔
یہ معاملہ اس وقت زیادہ اہمیت اختیار کر گیا جب وزیرِ اعظم شہباز شریف نے اپنے حالیہ دورۂ سعودی عرب میں بھی اس تنازعے پر بات چیت کی، اور سعودی فریق نے پاکستانی حکومت سے مداخلت کی درخواست کی۔ بالآخر اسپیشل انویسٹمنٹ فسیلیٹیشن کونسل (SIFC) نے ثالث کا کردار ادا کرتے ہوئے دونوں فریقین کے درمیان سمجھوتے کو ممکن بنایا۔
ذرائع کے مطابق شہریار چشتی اپنے تمام حصص سعودی سرمایہ کار کو منتقل کر دیں گے، جس کے بعد انہیں کمپنی سے علیحدہ کر دیا جائے گا۔ معاہدے پر دستخط کی تقریب کراچی کے وزیراعلیٰ ہاؤس میں منعقد ہوئی، جس کی میزبانی وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے کی۔ اس موقع پر سعودی وفد، پاکستانی حکام، سعودی سفارت خانے کے نمائندگان اور کاروباری تنظیموں کے اراکین نے بھی شرکت کی۔
تقریب کے دوران سعودی وفد کے سربراہ شہزادہ منصور بن محمد بن سعد آل سعود، جو سعودی-پاکستان جوائنٹ بزنس کونسل کے چیئرمین بھی ہیں، نے کہا کہ سعودی عرب پاکستان کی معیشت کا فعال حصہ بننے کے لیے سنجیدہ ہے۔ انہوں نے بتایا کہ مملکت کی قیادت نے واضح ہدایات دی ہیں کہ توانائی، خوراک، کان کنی اور سیاحت جیسے شعبوں میں پاکستان کے ساتھ سرمایہ کاری کے مواقع کو بڑھایا جائے تاکہ دونوں ممالک کے درمیان پائیدار شراکت داری قائم کی جا سکے۔
شہزادہ منصور کے مطابق یہ معاہدہ نہ صرف کاروباری تعلقات کو مضبوط کرے گا بلکہ ریاض کی جانب سے پاکستان کے توانائی و بنیادی ڈھانچے کے شعبوں پر اعتماد کی عکاسی بھی کرتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ سعودی سرمایہ کار اب کے-الیکٹرک کے انتظامی امور اور اس کی حکمتِ عملی کے تعین میں بھی فعال کردار ادا کریں گے۔
دوسری جانب، کے-الیکٹرک کے ترجمان نے بتایا کہ کمپنی کو اپنے شیئر ہولڈرز کی جانب سے کسی متوقع تبدیلی کے بارے میں کوئی باضابطہ اطلاع موصول نہیں ہوئی ہے۔ تاہم، کاروباری حلقے اس معاہدے کو دونوں ممالک کے درمیان بی ٹو بی تعاون کی ایک نئی مثال قرار دے رہے ہیں۔
یہ امر قابل ذکر ہے کہ ماضی میں شنگھائی الیکٹرک پاور نے بھی ایک اعشاریہ ستتر ارب ڈالر کے عوض کے-الیکٹرک کے حصول کا ارادہ ظاہر کیا تھا، لیکن پاکستان میں ریگولیٹری رکاوٹوں اور کاروباری ماحول میں تبدیلی کے باعث اس نے یہ منصوبہ ترک کر دیا۔ اب سعودی سرمایہ کاری اس خلا کو پُر کرنے کی کوشش ہے، جو پاکستان کے توانائی کے شعبے کے لیے ایک نیا اعتماد پیدا کرے گی۔
کے-الیکٹرک، جو 1913 میں کراچی الیکٹرک سپلائی کمپنی کے نام سے قائم ہوئی تھی، پاکستان کی واحد مربوط بجلی فراہم کرنے والی کمپنی ہے جو کراچی اور اس کے مضافاتی علاقوں کو بجلی فراہم کرتی ہے۔ اس کے بیشتر حصص کے ای ایس پاور کے پاس ہیں، جس میں سعودی عرب کی الجمیع پاور لمیٹڈ، کویت کی نیشنل انڈسٹریز گروپ ہولڈنگ اور کے ای ہولڈنگز شامل ہیں، جبکہ حکومتِ پاکستان 24.36 فیصد حصص رکھتی ہے۔
اسی دوران سعودی وفد کے دورے کے موقع پر ایک اور اہم یادداشت پر بھی دستخط ہوئے، جو کے-الیکٹرک اور ٹرائیڈنٹ انرجی کے درمیان تعاون کے لیے ہے۔ اس معاہدے کا مقصد بجلی کی پیداوار، قابلِ تجدید توانائی، اور انفراسٹرکچر کے منصوبوں میں مشترکہ سرمایہ کاری کو فروغ دینا ہے۔
یہ پیش رفت اس بات کا مظہر ہے کہ سعودی عرب پاکستان کے معاشی ڈھانچے کے ساتھ اپنے تعلقات کو مضبوط بنا رہا ہے۔ قیادتِ پاکستان اور سعودی عرب دونوں نے اس سمجھوتے کو ایک تاریخی سنگِ میل قرار دیتے ہوئے امید ظاہر کی ہے کہ یہ معاہدہ مستقبل میں توانائی، سرمایہ کاری اور صنعتی تعاون کے مزید دروازے کھولے گا۔
