اسلام آباد: پاکستان اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے درمیان جاری اسٹاف لیول معاہدہ اپنے حتمی مراحل میں داخل ہو گیا ہے، تاہم حکومت نے کرپشن اینڈ گورننس ڈائیگناسٹک رپورٹ پبلش کرنے کے لیے مہلت مانگ لی ہے۔ وزارتِ خزانہ کے ذرائع کے مطابق حکومت نے آئی ایم ایف کو آگاہ کیا ہے کہ رپورٹ کے بعض نکات حساس نوعیت کے حامل ہیں جن پر مزید غور اور وضاحت کے لیے وقت درکار ہے۔ ذرائع کے مطابق اس رپورٹ میں شفافیت، احتساب، ادارہ جاتی اصلاحات اور سرکاری مالی نظم و نسق سے متعلق سفارشات شامل ہیں، جنہیں حکومت مرحلہ وار نافذ کرنا چاہتی ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ سیلاب سے زرعی معیشت کو پہنچنے والے نقصان کے باعث صوبوں نے زرعی آمدن پر انکم ٹیکس کے نفاذ کے لیے بھی مزید مہلت طلب کی ہے۔ صوبائی حکومتوں نے مؤقف اختیار کیا ہے کہ حالیہ قدرتی آفات نے کسانوں کو شدید مالی دباؤ میں مبتلا کر دیا ہے، اس لیے فی الحال ٹیکس عائد کرنا عملی طور پر ممکن نہیں۔ دوسری جانب آئی ایم ایف کا اصرار ہے کہ پاکستان زرعی آمدن پر ٹیکس کا ایک مؤثر اور شفاف نظام متعارف کرائے تاکہ محصولات میں اضافہ ہو اور مالیاتی نظم و ضبط بہتر بنایا جا سکے۔
ذرائع کے مطابق پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان چار اہم نکات پر ورچوئل مذاکرات جاری ہیں جن میں سرکاری افسران کے اثاثے ظاہر کرنے، کرپشن اینڈ گورننس رپورٹ کی اشاعت، گندم خریداری کے طریقہ کار کی شفافیت، اور اسٹرکچرل بینچ مارکس میں لچک شامل ہے۔ فنڈ کی جانب سے مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ حکومت گندم خریداری میں نجی شعبے کو فعال کردار دے تاکہ شفافیت میں اضافہ اور اخراجات میں کمی ممکن ہو سکے۔
وزارتِ خزانہ کے حکام کے مطابق حکومتِ پاکستان نے آئی ایم ایف سے بعض سخت اسٹرکچرل شرائط پر نرمی کی درخواست بھی کی ہے تاکہ اسٹاف لیول معاہدہ جلد از جلد مکمل کیا جا سکے۔ حکومتی مؤقف کے مطابق ملک کو اس وقت معاشی استحکام کے ساتھ عوامی ریلیف کی بھی ضرورت ہے، اس لیے اصلاحات کا نفاذ بتدریج اور زمینی حقائق کو مدِنظر رکھتے ہوئے کیا جانا چاہیے۔ ذرائع کے مطابق اگر مذاکرات میں پیش رفت جاری رہی تو پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان اسٹاف لیول معاہدہ رواں ماہ کے آخر تک طے پانے کا امکان ہے، جس کے بعد اگلی قسط کے اجرا کے دروازے کھل سکتے ہیں۔
