پنجاب میں گندم کی بوائی کے موسم سے قبل فیصل آباد ڈویژن میں اس سال ایک بڑے پیمانے پر گندم کی کاشت کا ہدف مقرر کیا گیا ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق، اس سال فیصل آباد ڈویژن میں مجموعی طور پر 18 لاکھ 34 ہزار ایکڑ زمین گندم کے لیے مختص کی گئی ہے، جس میں 57 ہزار 318 ایکڑ سرکاری اراضی بھی شامل ہے جو خصوصی طور پر گندم کی پیداوار کے لیے رکھی گئی ہے۔ اس منصوبے کا مقصد زرعی خود کفالت، بہتر پیداوار اور قومی غذائی تحفظ کو یقینی بنانا ہے۔
یہ فیصلہ کمشنر راجہ جہانگیر انور کی زیرِ صدارت اجلاس میں کیا گیا، جس میں چاروں اضلاع کے انتظامی افسران، زراعت کے ماہرین اور کھاد ڈیلرز نے شرکت کی۔ اجلاس میں فصل کی تیاریوں، وسائل کی فراہمی اور کسانوں کو سہولت دینے کے مختلف پہلوؤں کا جائزہ لیا گیا۔
ڈائریکٹر زراعت فیصل آباد چوہدری خالد محمود نے اجلاس کو بتایا کہ گندم کے بیج کی دستیابی ہدف سے زیادہ ہے، اس لیے کاشت کے عمل میں کسی کمی کا سامنا نہیں ہوگا۔ انہوں نے بتایا کہ 275 زرعی انٹرنز فیلڈ میں محکمہ زراعت کی معاونت کر رہے ہیں، تاکہ زمین کی تیاری اور بوائی کے مراحل میں تکنیکی مدد فراہم کی جا سکے۔ ان کے مطابق اب تک 64 ہزار کسانوں کو “کسان کارڈ” جاری کیے جا چکے ہیں، جن کی مدد سے وہ براہِ راست حکومتی سبسڈی، قرضے اور دیگر سہولتوں سے مستفید ہو رہے ہیں۔
پنجاب حکومت نے آئندہ سیزن کے لیے گندم کی امدادی قیمت 3500 روپے فی 40 کلوگرام مقرر کی ہے۔ حکام کے مطابق یہ اقدام کسانوں کو منڈی کی غیر یقینی صورتحال سے بچانے اور ان کی آمدنی کو مستحکم رکھنے کے لیے کیا گیا ہے۔
کمشنر راجہ جہانگیر انور نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے زور دیا کہ زمین کی تیاری سے قبل پٹواریوں اور نمبر داروں کو “پلس رپورٹ” کے ذریعے کسانوں کی رائے حاصل کرنی چاہیے تاکہ زمینی حقائق درست انداز میں سامنے آ سکیں۔
انہوں نے ہدایت کی کہ افسران محض رسمی سرگرمیوں پر وقت ضائع کرنے کے بجائے کسانوں کے حقیقی مسائل حل کریں، مقامی سطح کے معاملات فوری طور پر نمٹائیں اور صوبائی سطح کے مسائل بروقت بالا حکام تک پہنچائیں۔
اسی دوران، ایوب ایگریکلچرل ریسرچ انسٹیٹیوٹ فیصل آباد میں پنجاب ایگریکلچرل ریسرچ کے ڈائریکٹر جنرل اور چیف سائنٹسٹ ڈاکٹر ساجد الرحمٰن کی صدارت میں ایک تکنیکی ذیلی کمیٹی کا اجلاس منعقد ہوا، جس میں کیڑے مار ادویات اور لیبل توسیع کے 44 کیسز پر غور کیا گیا۔ ڈاکٹر ساجد نے کہا کہ فصلوں کو نقصان پہنچانے والے کیڑوں اور بیماریوں پر بروقت قابو پانا غذائی تحفظ کے لیے ضروری ہے۔ انہوں نے نجی شعبے پر زور دیا کہ وہ جدید کیمیکل فارمولیشنز پر مبنی نئی زرعی ادویات جلد از جلد مارکیٹ میں متعارف کرائیں تاکہ فصلوں کی پیداوار میں اضافہ ہو سکے۔
ڈاکٹر ساجد الرحمٰن نے بتایا کہ محکمہ زراعت تحقیقاتی اداروں اور نجی کمپنیوں کے ساتھ مل کر نئی ٹیکنالوجیز کی آزمائش کر رہا ہے تاکہ فی ایکڑ پیداوار میں اضافہ کیا جا سکے اور کسانوں کے اخراجات کم ہوں۔ ان کا کہنا تھا کہ زرعی پالیسی، سائنسی تحقیق اور انتظامی اقدامات کے امتزاج سے پنجاب اپنی گندم کی پیداوار میں نمایاں بہتری لا سکتا ہے۔
ضلعی انتظامیہ کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ بیج کی فراہمی، کھاد، زرعی زہروں، پانی کی دستیابی اور خریداری کے تمام مراحل پر شفاف نگرانی یقینی بنائے۔ “پلس رپورٹ” کے ذریعے کسانوں کے مسائل کا بروقت پتہ چلانے اور فوری حل کی حکمت عملی تیار کی جا رہی ہے۔
زرعی ماہرین کا کہنا ہے کہ فیصل آباد ڈویژن کی زمین زرخیز ہونے کے باعث پنجاب کے گندم کے ہدف کے حصول میں مرکزی کردار ادا کرے گی۔ اگر بوائی بروقت مکمل ہو جائے اور جدید بیج و دوا استعمال کی جائے تو فی ایکڑ پیداوار میں خاطر خواہ اضافہ ممکن ہے، جو ملک کے غذائی تحفظ کے لیے ایک سنگِ میل ثابت ہوگا۔
یہ منصوبہ نہ صرف گندم کی پیداوار میں اضافہ کرے گا بلکہ کسانوں کے مالی استحکام اور صوبے کی اقتصادی ترقی میں بھی نمایاں کردار ادا کرے گا۔ اس طرح پنجاب ایک مرتبہ پھر ملک کے لیے “اناج کی ٹوکری” ثابت ہونے جا رہا ہے، جہاں جدید زرعی طریقے، شفاف حکمرانی اور سائنسی تحقیق مل کر زراعت کا نیا باب رقم کر رہے ہیں۔
