پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ نے آج ایک سخت نوید جاری کی اور خبردار کیا کہ حالیہ بھارتی بیانات اور دعووں کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا کیونکہ وہ خطے میں کشیدگی بڑھانے کی کوششوں کا حصہ ہیں۔ بیان میں کہا گیا کہ مئی کے واقعات کے بعد بھارت اب انتخابی موسم کو پسِ منظر رکھتے ہوئے دوبارہ سناریو تراش رہا ہے اور اپنے عوام کے سامنے ایک مبالغہ آمیز ورژن پیش کرنے کی کوشش کر رہا ہے، جو حقیقت سے عاری اور محض انتخابی پروپیگنڈا معلوم ہوتا ہے۔
آئی ایس پی آر نے واضح کیا کہ بعض بھارتی عسکری شخصیات اور سرکاری بیانات میں موجود تناقضات اتنے نمایاں ہیں کہ ان کا حقیقت کی بنیاد پر تجزیہ کرنا ہی موزوں نہیں رہا۔ ایسی رپورٹنگ اور بیان بازی کے پیچھے غالباً وہ سیاسی مقصد کارفرما ہے جس کے تحت اندرونی انتخابی مفادات کو بیرونی جارحیت کے مظاہرے سے جوڑا جا رہا ہے۔ اس سبکِ عمل کو ایک قابلِ تشویش رجحان قرار دیتے ہوئے پاکستانی فوج کے ترجمان نے کہا کہ تاریخی حقائق کو موڑنے یا بیانیہ کو اپنے مفاد کے مطابق رنگنے کی کوششیں سفارتی اور دفاعی سطح پر خطرناک نتائج پیدا کر سکتی ہیں۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ بھارتی عسکری قیادت کی طرف سے مئی میں پیش آنے والے تنازع کے بارے میں کیے گئے دعوؤں میں مبالغہ آرائی اور جھوٹ چھپا ہوا ہے۔ ان دعوؤں میں یہ دعویٰ بھی شامل تھا کہ اس جھڑپ کے دوران سو سے زائد پاکستانی فوجی ہلاک ہوئے، اور فضائی اڈوں اور زمینی فضائی اثاثوں کو شدید نقصان پہنچایا گیا — مگر آئی ایس پی آر نے ان باتوں کو خارجِ از حقیقت کہا اور بھارتی بیانات کی صداقت پر سوال اٹھائے۔
پاک فوج نے خاص طور پر نشاندہی کی کہ گزشتہ راتوں میں کرم سیکٹر پر افغان سرحد کے قریب بھی اشتعال انگیز کوششیں کی گئیں جنہیں فورسز نے مؤثر انداز میں ناکام کیا۔ ترجمان نے کہا کہ دشمن نے محض حدِ آزمائی کی کوشش کی مگر ہمارے جوانوں نے بہادری سے مقابلہ کیا اور سرحدی چوکیوں کی حفاظت کو یقینی بنایا۔ اسی بنا پر جوابی کارروائیوں میں دشمن کے متعدد ٹھکانوں کو نشانہ بنایا گیا اور بھاری نقصان پہنچایا گیا جس کے نتیجے میں متعدد عسکریت پسند ہلاک یا زخمی ہوئے جبکہ چند زرائع کا کہنا ہے کہ کئی ٹینک بھی تباہ ہوئے۔
آئی ایس پی آر نے اس صورتحال کا ایک واضح سیاسی تناظر بھی پیش کیا: بہار اور مغربی بنگال میں جلد ہونے والے انتخابات کی وجہ سے بھارتی عسکری قیادت اور سرکاری حلقے انتخابی فوائد حاصل کرنے کے مقصد سے جارحانہ بیانیے کو تقویت دے رہے ہیں۔ بیان میں خبردار کیا گیا کہ ایسی بے بنیاد اور اشتعال انگیز بیانات بازی، جہاں داخلی عوامی ردِعمل کو بھڑکاتی ہے، وہ علاقائی امن و استحکام کے لیے سنگین خطرہ بن سکتی ہے اور جنوبی ایشیا میں مزید تناؤ کو جنم دے سکتی ہے۔
مزید برآں، پاک فوج کے ترجمان نے دنیا کو یہ پیغام دیا کہ بین الاقوامی منظرنامے پر بھارت کی کارکردگی اور رویے کو لوگ اب الگ نگاہ سے دیکھ رہے ہیں، اور انہیں ایک ایسے کردار کے طور پر شناخت کیا جا رہا ہے جو بعض اوقات سرحد پار دہشت گردی اور عدم استحکام کے محرک کے طور پر سامنے آتا ہے۔ اس اشارے کے ذریعے پیغام واضح کیا گیا کہ اگر کوئی ریاست جارح رویہ اپنائے گی تو اس کے نتائج نہ صرف اس کے اپنے لیے خطرناک ہوں گے بلکہ خطے کی مجموعی سلامتی کو بھی نقصان پہنچ سکے گا۔
بیان میں زور دیا گیا کہ پاکستانی عوام اور ہماری مسلح افواج سرحد کے ہر قابلِ دفاع انچ کی حفاظت کے لیے پوری طرح تیار ہیں۔ کسی بھی قسم کی جارحیت کا فوری، فیصلہ کن اور سخت جواب دیا جائے گا اور ایسے جوابی اقدامات آئندہ نسلوں کے لیے مثال بن جائیں گے۔ پاک فوج نے یہ عہد دہرایا کہ دفاعی تیاری، چوکس رہنا اور ہر ممکن حفاظتی اقدام جاری رکھے جائیں گے تاکہ کسی بھی قسم کی دراندازی یا اشتعال انگیزی کا بروقت اور مؤثر ردِعمل ممکن ہو۔
ماضی قریب میں عسکری قیادت کی جانب سے بھارت کو آگاہ کیا گیا تھا کہ اگر نئی سیاسی حکمتِ عملی کے تحت وہ دو طرفہ تعلقات کے بارے میں کوئی نیا ’خیالی معمول‘ قائم کرنے کی کوشش کرے گا تو اسے ایک نئے ردِعملی معمول کا سامنا کرنا پڑے گا جسے پاکستان مؤثر طریقے سے نافذ کرے گا۔ اس انتباہ کو دوبارہ دہرایا گیا اور کہا گیا کہ ہر قسم کی جارحیت کا حساب کتاب ہوگا۔
اس ساری پس منظر کے تحت یہ بات واضح کی گئی کہ انتخابی تقویم، داخلی سیاسی مفادات یا میڈیا میں اثرو رسوخ حاصل کرنے کے لیے کسی بھی ریاست کو جارحیت کی بيجا تشہیر سے گریز کرنا چاہیے۔ پاک فوج کا مؤقف یہ ہے کہ فوجی معاملات اور دعووں کو سیاسی ایجنڈوں کے حصہ بنانا علاقائی امن کے لیے خطرناک ہے اور مسلمہ نتائج کا باعث بن سکتا ہے۔
آخر میں ترجمان نے عالمی برادری سے بھی اپیل کی کہ وہ اس طرزِ عمل اور اشتعال انگیز بیانیے کے خطرات کو سمجھے اور خطے میں شفاف صورتحال کی حمایت کرے تاکہ کسی بھی ناجائز مہم جوئی کو بروقت روکا جا سکے۔ پاکستان نے واضح کر دیا ہے کہ وہ دفاع کے شعبے میں اپنے شہریوں اور سرحدوں کے تحفظ کے لیے ضروری ہر اقدام اٹھائے گا اور امن کی کوششوں کو کمزوری کے طور پر برداشت نہیں کرے گا۔
