بیس سال بعد لاہور کی فضاؤں میں ایک بار پھر بہار کے رنگ لوٹنے کو ہیں، کیونکہ پنجاب حکومت نے محدود پیمانے پر بسنت منانے کی اجازت دے دی ہے۔ یہ وہی تہوار ہے جو کبھی لاہور کی ثقافتی شناخت، خوشیوں اور رنگینیوں کی پہچان ہوا کرتا تھا، مگر خطرناک ڈوروں کے باعث انسانی جانوں کے ضیاع نے اسے پابندیوں کے اندھیروں میں دھکیل دیا تھا۔ اب حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ یہ روایت ایک بار پھر زندہ کی جائے گی ، مگر مکمل احتیاط اور سخت حفاظتی اقدامات کے ساتھ۔
ذرائع کے مطابق سینیئر وزیر مریم اورنگزیب کی زیرِ صدارت ایک اعلیٰ سطحی اجلاس میں محفوظ بسنت پلان کی منظوری دی گئی ہے۔ پلان کے مطابق بسنت صرف دو دنوں کے لیے ہفتے اور اتوار کو منائی جائے گی، اور یہ سرگرمیاں اندرون لاہور کے 12 تاریخی دروازوں کے اندر مخصوص علاقوں تک محدود ہوں گی، جن میں شاہی قلعہ، بھاٹی گیٹ، موچی گیٹ، رنگ محل اور انارکلی شامل ہیں۔
اجلاس میں طے کیا گیا کہ بسنت کو محفوظ بنانے کے لیے کیمیائی، دھاتی اور نائیلون ڈوروں پر مکمل پابندی برقرار رہے گی، صرف روئی اور نشاستے سے بنی روایتی ڈوروں کی اجازت ہوگی۔ ہر پتنگ اور ڈور پر بار کوڈ لازمی ہوگا تاکہ نگرانی کو مؤثر بنایا جا سکے۔ غیر رجسٹرڈ پتنگ فروشوں اور غیرمحفوظ ڈور بنانے والوں کے خلاف سخت کارروائیاں کی جائیں گی، جبکہ بسنت والے علاقوں میں موٹر سائیکلوں کے داخلے پر پابندی اور حفاظتی انتظامات جیسے سیفٹی نیٹس، وائر پروٹیکشن سسٹم، سیفٹی اینٹینا اور گلے کے کور بھی لازمی ہوں گے۔
اندرون لاہور کے باسیوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے۔ بھاٹی گیٹ کے غلام محمد کا کہنا ہے، "میرے والد نے بھاٹی میں سب سے پہلے گڈیوں کا کاروبار شروع کیا تھا۔ وہ وقت خوشیوں سے بھرا ہوتا تھا۔ اب حکومت نے اگر دوبارہ اجازت دی ہے تو یہ خوش آئند ہے مگر خوشی کسی کی جان کی قیمت پر نہیں ہونی چاہیے۔
اسی طرح اندرون لاہور کے عثمان رومی نے کہا، یہ فیصلہ بہت اچھا ہے۔ اگر ہم نے قانون کی پابندی کی تو بسنت پھر ہر سال ہو سکتی ہے۔ اس سے روزگار بڑھے گا، سیاحت فروغ پائے گی اور لاہور کی پہچان بحال ہو گی۔
یاد رہے کہ 2005 کے بعد پنجاب میں بسنت پر مکمل پابندی عائد کر دی گئی تھی، کیونکہ دھاتی ڈوروں نے سینکڑوں قیمتی جانیں نگل لی تھیں۔ اس دوران پتنگ سازی سے وابستہ ہزاروں کاریگر بے روزگار ہو گئے۔ اب حکومت کا کہنا ہے کہ بسنت کی یہ واپسی خوشیوں کی بحالی ہے، سزا نہیں ایک موقع کہ لاہور اپنی گمشدہ ثقافت کو نئے انداز میں، محفوظ دائرے کے اندر، دوبارہ زندہ کر سکے۔
بسنت کی یہ مشروط اجازت نہ صرف ثقافتی زندگی کی واپسی ہے بلکہ ایک نئے آغاز کی علامت بھی جہاں روایت، حفاظت اور خوشی ایک ساتھ پروان چڑھیں گے، اور لاہور کی فضا میں ایک بار پھر وہی صدا گونجے گی بو کاٹا
