پاکستان نے اسرائیل کے تازہ حملوں کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ غزہ پر اسرائیلی بمباری شرم الشیخ امن معاہدے کی کھلی خلاف ورزی ہے، جس نے خطے میں ایک بار پھر عدم استحکام پیدا کر دیا ہے۔ اسلام آباد نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ فوری طور پر اسرائیلی جارحیت کو روکنے کے لیے مؤثر اقدامات کرے۔
دفترِ خارجہ کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ حکومتِ پاکستان اسرائیل کی حالیہ کارروائیوں پر گہری تشویش کا اظہار کرتی ہے کیونکہ ان حملوں میں بے گناہ فلسطینی شہری اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ ترجمان نے کہا کہ "یہ حملے نہ صرف جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزی ہیں بلکہ بین الاقوامی انسانی قوانین کی بھی کھلی توہین ہیں۔”
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ پاکستان اسرائیلی جارحیت کے فوری خاتمے اور غزہ میں مکمل امن کی بحالی کا مطالبہ کرتا ہے۔ دفترِ خارجہ نے واضح کیا کہ اسرائیل کی کارروائیاں شرم الشیخ امن معاہدے کی روح کے خلاف ہیں، جو کئی ماہ کی سفارتی کوششوں کے بعد ممکن ہو سکا تھا۔
ترجمان دفترِ خارجہ کے مطابق پاکستان نے اقوامِ متحدہ، او آئی سی اور انسانی حقوق کی تنظیموں سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ فوری طور پر کردار ادا کریں تاکہ مزید جانی نقصان روکا جا سکے۔ بیان میں کہا گیا کہ عالمی برادری پر لازم ہے کہ وہ اسرائیلی خلاف ورزیوں کو روکنے کے لیے مؤثر دباؤ ڈالے اور فلسطینی شہریوں کے تحفظ کو یقینی بنائے۔
پاکستان نے ایک بار پھر فلسطینی عوام سے اپنی غیر متزلزل حمایت کا اعادہ کیا اور اس بات پر زور دیا کہ فلسطینی ریاست کا قیام 1967 سے پہلے کی سرحدوں کے مطابق عمل میں لایا جائے اور القدس الشریف کو اس کا دارالحکومت قرار دیا جائے۔
بیان میں کہا گیا کہ "پاکستان فلسطینی عوام کے ساتھ مکمل یکجہتی میں کھڑا ہے، اور ان کی آزادی کی جدوجہد میں ان کی حمایت جاری رکھے گا۔”
پس منظر کے طور پر، 13 اکتوبر کو مصر کے شہر شرم الشیخ میں تقریباً دو سال طویل جنگ کے بعد اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی معاہدہ طے پایا تھا۔ یہ معاہدہ امریکہ، مصر، قطر اور ترکیہ کی ثالثی میں ممکن ہوا، جس پر ان ممالک کے سربراہان نے دستخط کیے تھے۔
تاہم، معاہدے کے چند ہی دن بعد اسرائیل نے الزام لگایا کہ حماس کے جنگجوؤں نے دو اسرائیلی فوجیوں کو ہلاک کیا ہے۔ اس الزام کے بعد اسرائیل نے غزہ پر شدید بمباری شروع کر دی، جس کے نتیجے میں 38 فلسطینی شہید اور 140 سے زائد زخمی ہوئے، جن میں خواتین اور بچے بھی شامل تھے۔ حماس نے ان الزامات کی سختی سے تردید کرتے ہوئے کہا کہ یہ اسرائیل کی "خود ساختہ کارروائیوں” کو جواز فراہم کرنے کی کوشش ہے۔
غزہ کے سرکاری میڈیا دفتر کے مطابق، جنگ بندی کے بعد سے اسرائیل نے 47 مرتبہ معاہدے کی خلاف ورزی کی، جن میں متعدد فضائی حملے، گولہ باری اور امدادی قافلوں کی راہ میں رکاوٹیں شامل تھیں۔ امدادی سامان کی ترسیل بند ہونے سے غزہ میں انسانی بحران مزید سنگین ہو گیا ہے۔
بین الاقوامی دباؤ کے بعد اسرائیل نے 20 اکتوبر کو اعلان کیا کہ وہ جنگ بندی معاہدے پر دوبارہ عمل درآمد شروع کر رہا ہے۔ اسرائیلی فوج نے کہا کہ یہ کارروائیاں "دفاعی اقدامات” تھیں اور اب وہ معاہدے کو "مزید مستحکم” کرنے کے لیے اقدامات کر رہی ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی تصدیق کی کہ جنگ بندی بحال ہو چکی ہے اور واشنگٹن اس عمل کی نگرانی کر رہا ہے۔ تاہم، انسانی حقوق کی تنظیموں اور بین الاقوامی مبصرین نے خبردار کیا ہے کہ فریقین کے درمیان اعتماد کی کمی کے باعث امن عمل اب بھی نازک موڑ پر ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پاکستان کا یہ بیان مسلم دنیا کے بڑھتے ہوئے غصے اور مایوسی کی عکاسی کرتا ہے۔ ان کے مطابق، اسرائیل کے مسلسل حملے عالمی برادری کے امن وعدوں پر سوالیہ نشان ہیں۔ اسلام آباد کا مؤقف واضح ہے کہ اگر اسرائیل کو جوابدہ نہیں ٹھہرایا گیا تو یہ معاہدے صرف کاغذی حیثیت رکھتے ہیں۔
پاکستان نے عالمی طاقتوں سے ایک بار پھر اپیل کی ہے کہ وہ محض بیانات سے آگے بڑھ کر عملی اقدامات کریں تاکہ غزہ میں مزید خونریزی روکی جا سکے اور فلسطینی عوام کو ایک بار پھر امید کا احساس دلایا جا سکے۔
