ایک ایسے عالمی دور میں جب طاقت کے مراکز تیزی سے تبدیل ہو رہے ہیں، اتحادی تعلقات نئی سمتیں اختیار کر رہے ہیں، اور ایشیا عالمی سیاست کا محور بن چکا ہے، امریکہ اور بھارت کے درمیان دس سالہ دفاعی تعاون کے فریم ورک پر دستخط کو ایک فیصلہ کن اور تاریخی موڑ سمجھا جا رہا ہے۔ یہ معاہدہ نہ صرف دو بڑی جمہوریتوں کے درمیان فوجی تعلقات کی مضبوطی کی علامت ہے بلکہ یہ مستقبل کے عالمی دفاعی توازن کے لیے ایک نئی سمت متعین کرنے والا قدم بھی ہے۔ اس اعلان کا باقاعدہ آغاز ملائیشیا کے دارالحکومت کوالالمپور میں اس وقت ہوا جب امریکی وزیرِ دفاع پیٹ ہیگستھ اور بھارتی وزیرِ دفاع راجناتھ سنگھ نے آسیان ڈیفنس منسٹرز میٹنگ پلس (ADMM-Plus) کے موقع پر ایک مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران اس پر دستخط کیے۔
یہ دستخط بظاہر محض ایک معاہدے کا اعلان تھے، مگر درحقیقت انہوں نے ایک ایسی حکمتِ عملی کی بنیاد رکھ دی ہے جو آئندہ کئی برسوں تک انڈو پیسیفک خطے کے سیکیورٹی ڈھانچے کو متاثر کرے گی۔ ہیگستھ نے اس موقع پر کہا کہ یہ فریم ورک “صرف ایک دستاویزی معاہدہ نہیں بلکہ ایک طویل المدت عہد ہے — امن، استحکام اور باہمی اعتماد کے تسلسل کا وعدہ۔” انہوں نے وضاحت کی کہ امریکہ اور بھارت کے درمیان تعلقات اب اس مقام پر پہنچ چکے ہیں جہاں محض باہمی تعاون نہیں بلکہ تزویراتی ہم آہنگی (Strategic Convergence) کی ایک نئی حقیقت جنم لے چکی ہے۔
امریکی وزیرِ دفاع نے کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان یہ نیا دفاعی ڈھانچہ “طاقت کے توازن” کو برقرار رکھنے کے ساتھ ساتھ خطے میں استحکام، کھلے تجارتی راستوں کی سلامتی اور عالمی قانون کے احترام کو بھی یقینی بنائے گا۔ ان کے مطابق انڈو پیسیفک خطہ اب دنیا کی اقتصادی اور فوجی سرگرمیوں کا مرکز بن چکا ہے، اور اس خطے کی سلامتی میں ذرا سا بگاڑ عالمی معیشت پر گہرے اثرات مرتب کر سکتا ہے۔ اسی لیے یہ فریم ورک صرف عسکری تعاون نہیں بلکہ ایک وسیع تر عالمی وژن کا حصہ ہے۔
امریکی محکمہ دفاع کے مطابق، معاہدے کے تحت دونوں ممالک کے درمیان فوجی ہم آہنگی، انٹیلیجنس شیئرنگ، ٹیکنالوجی ٹرانسفر اور دفاعی جدت کو فروغ دینے کے لیے ایک جامع منصوبہ ترتیب دیا گیا ہے۔ آنے والے برسوں میں دونوں ملکوں کے درمیان مشترکہ فوجی مشقوں کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہوگا، دفاعی تحقیق و ترقی میں اشتراک پیدا کیا جائے گا، اور لاجسٹک معاونت کو مربوط بنایا جائے گا تاکہ کسی بھی ہنگامی صورتحال میں دونوں افواج ایک دوسرے کے ساتھ مؤثر طریقے سے کام کر سکیں۔
ماہرین کے نزدیک، اس معاہدے کی سب سے اہم جہت چین کے بڑھتے ہوئے فوجی اثر و رسوخ کو متوازن کرنا ہے۔ ان کے مطابق، واشنگٹن چاہتا ہے کہ بھارت خطے میں ایک مضبوط اور فعال شراکت دار کے طور پر سامنے آئے جو بیجنگ کی عسکری پالیسیوں کے مقابلے میں ایک جمہوری توازن پیدا کر سکے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اس معاہدے سے کچھ عرصہ پہلے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں تناؤ پیدا ہو گیا تھا۔ واشنگٹن نے بھارت کے روس سے رعایتی نرخوں پر خام تیل خریدنے پر شدید تحفظات ظاہر کیے تھے، کیونکہ امریکہ سمجھتا تھا کہ اس سے روسی جنگی معیشت کو سہارا مل رہا ہے۔ لیکن ان اختلافات کے باوجود دونوں ممالک نے یہ سمجھ لیا کہ قلیل المدت سیاسی مسائل کو طویل المدت دفاعی مفادات پر غالب نہیں آنے دینا چاہیے۔ یہی سوچ اس فریم ورک کی بنیاد بنی۔
راجناتھ سنگھ نے تقریب کے بعد اپنے بیان میں کہا کہ یہ معاہدہ بھارت-امریکہ تعلقات کی تاریخ میں “ایک سنگِ میل” کی حیثیت رکھتا ہے۔ ان کے مطابق یہ صرف فوجی اشتراک نہیں بلکہ دو جمہوری ممالک کے درمیان اعتماد، شفافیت اور مشترکہ ذمہ داریوں پر مبنی تعلقات کا نیا باب ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ معاہدے کا بنیادی مقصد ایک ایسا کھلا، محفوظ اور قواعد پر مبنی انڈو پیسیفک تشکیل دینا ہے جہاں سمندری تجارت کے راستے محفوظ رہیں، جارحانہ عزائم کی حوصلہ شکنی ہو، اور عالمی قانون کی پاسداری کی جا سکے۔
معاہدے کے تحت ٹیکنالوجی کی منتقلی، مشترکہ پیداوار، اور دفاعی صنعت میں جدید کاری کو خاص ترجیح دی گئی ہے۔ دونوں ممالک سائبر سیکیورٹی، خلا میں دفاع، مصنوعی ذہانت پر مبنی نظام، اور جدید میزائل ٹیکنالوجی میں تعاون کے لیے ورکنگ گروپس تشکیل دیں گے۔ ان گروپس کا مقصد یہ ہوگا کہ صنعتی اشتراک میں رکاوٹیں کم ہوں، برآمدی قوانین نرم کیے جائیں، اور دفاعی دانش و ملکیت (Intellectual Property) کے تبادلے کے راستے کھولے جائیں۔
تجزیہ کاروں کے مطابق امریکہ کے لیے یہ معاہدہ ایشیا میں اپنے اتحادی نیٹ ورک کو مزید مضبوط کرنے کا ہتھیار ہے، جب کہ بھارت کے لیے یہ اس کی دفاعی جدید کاری کی رفتار تیز کرنے کا ایک اہم موقع ہے۔ بھارت اب ایک ایسے مرحلے پر پہنچ چکا ہے جہاں وہ نہ صرف خطے میں ایک توازن پیدا کرنے والی طاقت ہے بلکہ عالمی اسٹریٹجک فیصلوں میں بھی ایک اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔
امریکہ پہلے ہی بھارت کو “میجر ڈیفنس پارٹنر” کا درجہ دے چکا ہے، جو کسی غیر نیٹو ملک کے لیے غیر معمولی حیثیت رکھتا ہے۔ اس درجہ کی بدولت بھارت کو جدید دفاعی ٹیکنالوجی، حساس معلومات، اور مشترکہ منصوبہ بندی تک وسیع رسائی حاصل ہے۔
یہ معاہدہ “کواڈ الائنس” — یعنی امریکہ، بھارت، جاپان اور آسٹریلیا کے اتحاد — کو بھی نئی قوت فراہم کرے گا۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ فریم ورک اس اتحاد کے فوجی پہلو کو عملی بنیادوں پر مضبوط بنائے گا، تاکہ کسی قدرتی آفت، ہنگامی صورتحال، یا امن مشن کے دوران چاروں ممالک کی افواج ایک دوسرے کے ساتھ بغیر کسی رکاوٹ کے کام کر سکیں۔
آسیان دفاعی اجلاس کے موقع پر دستخط کیے جانے کا فیصلہ بھی علامتی لحاظ سے اہم تھا۔ اس فورم میں چین، روس، اور جنوب مشرقی ایشیائی ممالک شامل ہیں، اور اس موقع پر معاہدے کا اعلان دراصل یہ پیغام دینے کے مترادف تھا کہ امریکہ اور بھارت کا مقصد کسی ملک کے خلاف محاذ کھڑا کرنا نہیں بلکہ خطے میں استحکام، توازن اور تعاون کو فروغ دینا ہے۔
دوسری طرف، حالیہ دنوں میں امریکی وزیرِ خارجہ مارکو روبیو اور بھارتی وزیرِ خارجہ ایس جے شنکر کی ملاقات نے بھی دونوں ملکوں کے تعلقات کو بہتر بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ یہ ملاقات ملائیشیا میں ہوئی، جہاں دونوں رہنماؤں نے روسی تیل پر امریکی پابندیوں اور دوطرفہ تعلقات میں پیدا ہونے والے تناؤ پر بات چیت کی۔ ان مذاکرات کے بعد دفاعی معاہدے پر دستخط اس بات کا مظہر ہیں کہ دونوں ملک اپنی شراکت داری کو وقتی سیاسی اختلافات سے بالاتر رکھنے کے خواہاں ہیں۔
امریکی ماہرین دفاع نے اس فریم ورک کو ایک “اسٹریٹجک اینکر” یا استحکام کی بنیاد قرار دیا ہے۔ ان کے مطابق، دس سالہ مدت ایک ایسا فاصلہ فراہم کرتی ہے جس میں دونوں ملک اپنی دفاعی پالیسیوں، انٹیلیجنس کے نظام، اور سمندری سلامتی کے منصوبوں کو بہتر طریقے سے ہم آہنگ کر سکتے ہیں۔ امریکی محکمہ دفاع نے واضح کیا ہے کہ ہر سال ایک مشترکہ جائزہ اجلاس منعقد ہوگا جس میں معاہدے کی پیش رفت، چیلنجز، اور نئی ترجیحات کا تعین کیا جائے گا۔
بھارت میں بھی اس معاہدے کو قومی مفاد کے عین مطابق قرار دیا جا رہا ہے۔ سابق سفارتکاروں اور دفاعی ماہرین نے کہا ہے کہ یہ اقدام اس حقیقت کا مظہر ہے کہ بھارت اب محض ایک علاقائی طاقت نہیں بلکہ ایک عالمی کردار بن چکا ہے۔ ان کے مطابق بھارت اپنی “اسٹریٹجک خودمختاری” برقرار رکھتے ہوئے ہم خیال جمہوری ممالک کے ساتھ عملی شراکت داری بڑھانے کا حامی ہے، کیونکہ موجودہ عالمی ماحول میں تعاون ہی سلامتی کی ضمانت ہے۔
اقتصادی اعتبار سے بھی یہ معاہدہ بھارت کے لیے اہم نتائج لا سکتا ہے۔ امریکہ کی بڑی دفاعی کمپنیاں بھارت میں سرمایہ کاری بڑھا سکتی ہیں، جو مودی حکومت کے “میک اِن انڈیا” پروگرام کو تقویت دے گی۔ اس سے نہ صرف روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے بلکہ بھارت اپنی دفاعی پیداوار میں خودکفیل ہونے کے راستے پر بھی گامزن ہو سکے گا۔
بالآخر، یہ دس سالہ دفاعی فریم ورک دو جمہوری طاقتوں کے درمیان اعتماد، تکنیکی ترقی، اور مشترکہ وژن کا عکاس ہے۔ یہ معاہدہ صرف عسکری تعاون نہیں بلکہ ایک وسیع تر سفارتی اعلان ہے — کہ امریکہ اور بھارت اپنی شراکت داری کو اس سطح تک لے جانے کے لیے پرعزم ہیں جہاں امن، قانون، اور ترقی کے اصول کسی سیاسی تبدیلی سے متاثر نہ ہوں۔
آخرکار، یہ معاہدہ اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ عالمی طاقت کے اس نئے دور میں، جمہوری ممالک اگر اعتماد، احترام اور تکنیکی شراکت کی بنیاد پر متحد ہوں، تو وہ نہ صرف اپنے مفادات کا دفاع کر سکتے ہیں بلکہ عالمی استحکام کا تحفظ بھی کر سکتے ہیں۔ انڈو پیسیفک خطے میں امن کا یہ عہد دراصل ایک ایسے مستقبل کی پیش گوئی ہے جہاں طاقت نہیں بلکہ شراکت داری فیصلہ کرے گی کہ دنیا کا نقشہ کس سمت میں آگے بڑھے گا۔
