نیویارک :امریکہ نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں غزہ کی پٹی کے لیے ایک نیا اور تاریخی امن منصوبہ پیش کیا ہے، جس کا مقصد جنگ سے تباہ حال علاقے میں دیرپا استحکام قائم کرنا اور عبوری حکومت کے قیام کی راہ ہموار کرنا ہے۔ اقوام متحدہ میں امریکی مشن کے مطابق، یہ قرارداد ایک جامع فریم ورک فراہم کرتی ہے جس کے تحت غزہ میں ایک بین الاقوامی استحکام فورس تعینات کی جائے گی، جو صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے 20 نکاتی امن منصوبے کا مرکزی حصہ ہے۔
امریکی مندوب مائیک والٹز نے اس مسودے کے لیے نہ صرف سلامتی کونسل کے دس غیر مستقل اراکین کو ساتھ ملایا بلکہ مصر، قطر، متحدہ عرب امارات، سعودی عرب اور ترکی جیسے اہم علاقائی ممالک کو بھی شامل کیا ہے۔ یہ اقدام اس بات کی علامت سمجھا جا رہا ہے کہ واشنگٹن اب مشرقِ وسطیٰ میں امن کے لیے ایک مشترکہ علاقائی وژن تشکیل دینا چاہتا ہے، جس میں مقامی شراکت داری کو اولین حیثیت دی گئی ہے۔
قرارداد کے مطابق، غزہ میں ایک عبوری انتظامی ڈھانچہ قائم کیا جائے گا جس کی نگرانی امن کونسل کرے گی ایک نئی ادارتی ساخت جس کی قیادت براہِ راست صدر ٹرمپ کریں گے۔ یہ کونسل نہ صرف سلامتی کی ذمہ داری سنبھالے گی بلکہ تعمیرِ نو، امدادی تقسیم، اور مقامی سیکیورٹی فورس کی تربیت جیسے کاموں کی نگرانی بھی کرے گی۔ امریکی ترجمان کے بقول، صدر ٹرمپ کی جُرات مندانہ قیادت کی بدولت امریکہ اب اقوامِ متحدہ میں محض باتوں سے آگے بڑھ کر عملی نتائج حاصل کرے گا۔
تاہم، اس منصوبے کو مکمل حمایت حاصل نہیں۔ متعدد ممالک، جن میں انڈونیشیا اور پاکستان شامل ہیں، نے اصولی طور پر فورس میں شرکت کی آمادگی ظاہر کی ہے لیکن اس شرط کے ساتھ کہ اس فورس کو سلامتی کونسل کی باضابطہ منظوری حاصل ہونی چاہیے۔ دوسری جانب، ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ دیکھنا باقی ہے کہ روس اور چین اس منصوبے پر کیا مؤقف اختیار کرتے ہیں کیونکہ ان کے ویٹو کی طاقت قرارداد کی قسمت کا فیصلہ کر سکتی ہے۔
امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے اکتوبر کے آخر میں اسرائیل کے دورے کے دوران اس منصوبے کا عندیہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ اگر دنیا واقعی امن چاہتی ہے تو اب وقت آ گیا ہے کہ ایک بین الاقوامی فورس غزہ میں امن و استحکام کی ضمانت بنے۔ یہ فورس اس جنگ بندی معاہدے کا حصہ ہے جو 10 اکتوبر کو اسرائیل اور حماس کے درمیان طے پایا، دو سال بعد جب 7 اکتوبر 2023 کو حماس نے جنوبی اسرائیل پر حملہ کیا تھا۔
تجزیہ کاروں کے مطابق، یہ قرارداد امریکی خارجہ پالیسی میں ایک بڑی تبدیلی کی علامت ہے، جو ماضی کے محض ثالثی کردار سے ہٹ کر براہِ راست قیادت اور نفاذ پر مبنی ہے۔ اگر یہ مسودہ منظور ہو جاتا ہے، تو یہ نہ صرف غزہ بلکہ پورے مشرقِ وسطیٰ میں طاقت کے توازن اور امن کی سمت ایک نیا باب رقم کر سکتا ہے۔
