چین نے اپنی ٹیکنالوجی میں خود کفالت حاصل کرنے کے لیے ایک اور بڑا قدم اٹھایا ہے۔ اطلاعات کے مطابق، بیجنگ حکومت نے ایک نئی ہدایت جاری کی ہے جس کے تحت وہ تمام ڈیٹا سینٹر منصوبے جنہیں ریاستی فنڈز سے مدد ملی ہے، اب صرف ملکی ساختہ مصنوعی ذہانت (AI) چپس استعمال کریں گے۔ یہ ہدایت خاموشی سے صوبائی حکومتوں اور سرکاری اداروں تک پہنچائی گئی ہے اور تجزیہ کار اسے چین کے ٹیکنالوجی انفراسٹرکچر سے غیر ملکی انحصار ختم کرنے کی سب سے مضبوط کوششوں میں سے ایک قرار دے رہے ہیں۔
ذرائع کے مطابق، ایسے ڈیٹا سینٹرز جو ابھی تعمیر کے ابتدائی مرحلے میں ہیں — یعنی جن کی تعمیر 30 فیصد سے کم مکمل ہوئی ہے — انہیں حکم دیا گیا ہے کہ وہ پہلے سے لگائے گئے تمام غیر ملکی چپس ہٹا دیں اور آئندہ کسی بیرونی کمپنی سے خریداری نہ کریں۔ جن منصوبوں پر کام زیادہ ہو چکا ہے، ان کا فیصلہ الگ الگ بنیادوں پر کیا جائے گا۔
یہ پالیسی دراصل چین کی اس وسیع حکمتِ عملی کا حصہ ہے جس کے تحت وہ اپنے ڈیجیٹل نظام کو مکمل طور پر خود مختار بنانا چاہتا ہے۔ اگرچہ واشنگٹن اور بیجنگ کے درمیان تجارتی کشیدگی میں حالیہ دنوں کچھ نرمی نظر آئی ہے، لیکن مصنوعی ذہانت اور کمپیوٹنگ ٹیکنالوجی کے میدان میں مقابلہ پہلے سے زیادہ شدید ہو گیا ہے۔ چین کی قیادت سمجھتی ہے کہ مستقبل میں ترقی اور عالمی طاقت کا دار و مدار انہی ٹیکنالوجیز پر ہے، اس لیے ان پر بیرونی انحصار کم سے کم ہونا چاہیے۔
کئی برسوں سے چین کی مصنوعی ذہانت اور کلاؤڈ کمپیوٹنگ انڈسٹری امریکی کمپنیوں جیسے Nvidia، AMD اور Intel کے جدید چپس پر انحصار کرتی آئی ہے۔ یہی چپس بڑے پیمانے پر ڈیٹا پروسیسنگ، مشین لرننگ اور جدید AI ماڈلز کے لیے بنیادی حیثیت رکھتی ہیں۔ لیکن جیسے ہی امریکہ نے اپنی برآمدی پابندیاں سخت کیں اور چین کو جدید ترین چپس کی فروخت محدود کی، ویسے ہی بیجنگ کے لیے خود انحصاری کی ضرورت ناگزیر ہو گئی۔
اب حکومت کا واضح مقصد یہ ہے کہ ریاستی فنڈ سے چلنے والے تمام منصوبے صرف چینی ساختہ چپس استعمال کریں۔ اس فیصلے سے مقامی سیمی کنڈکٹر انڈسٹری کو فروغ ملے گا اور ساتھ ہی چین کے لیے اسٹریٹجک خود مختاری حاصل کرنے کی راہ ہموار ہوگی۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ بیجنگ دراصل ایک ایسا متبادل تکنیکی نظام کھڑا کر رہا ہے جو اس وقت بھی کام کرتا رہے جب بیرونی رسد مکمل طور پر بند ہو جائے۔
اس نئی پالیسی کے اثرات فوری طور پر ظاہر ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ ایک مثال کے طور پر، شمال مغربی چین میں ایک بڑا ڈیٹا سینٹر منصوبہ جو Nvidia چپس استعمال کرنے والا تھا، اسے عارضی طور پر روک دیا گیا ہے تاکہ ہدایات کے مطابق صرف ملکی چپس استعمال کی جائیں۔ کچھ دوسرے منصوبے بھی ڈیزائن میں تبدیلیاں کر رہے ہیں تاکہ درآمدی آلات کی جگہ مقامی پرزے استعمال کیے جا سکیں۔
اگرچہ ابھی یہ واضح نہیں کہ یہ پالیسی پورے ملک پر لاگو ہوگی یا مخصوص صوبوں تک محدود ہے، لیکن حکومت کا ارادہ ہے کہ آنے والے وقت میں اسے قومی سطح پر نافذ کیا جائے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اس پالیسی کے ساتھ کچھ ترغیبات بھی دی جا رہی ہیں۔ رپورٹوں کے مطابق، چین کے کچھ صوبوں میں وہ ڈیٹا سینٹرز جو ملکی چپس استعمال کریں گے، انہیں بجلی کے نرخوں میں 50 فیصد تک رعایت دی جا رہی ہے۔ یہ رعایت اس بڑے منصوبے کا حصہ ہے جس کے تحت حکومت مقامی چپ انڈسٹری کو عالمی سطح پر مقابلے کے قابل بنانا چاہتی ہے۔
سرکاری اندازوں کے مطابق 2021 سے اب تک چین میں مصنوعی ذہانت کے ڈیٹا سینٹرز کے لیے 100 ارب ڈالر سے زیادہ کی سرمایہ کاری ہو چکی ہے۔ چونکہ ان میں سے بیشتر منصوبے کسی نہ کسی صورت میں ریاستی فنڈنگ سے وابستہ ہیں، اس لیے نئی پالیسی کے اثرات بہت وسیع ہوں گے۔
غیر ملکی کمپنیوں کے لیے، خاص طور پر Nvidia کے لیے، یہ قدم ایک بڑا دھچکا ہے۔ چین کے AI مارکیٹ میں Nvidia کا حصہ 2022 میں تقریباً 95 فیصد تھا، لیکن اب اس کی پوزیشن غیر یقینی ہو گئی ہے۔ اگرچہ کمپنی نے چین کے لیے الگ ماڈلز بنانے کی کوشش کی، لیکن وہ عالمی معیار کی کارکردگی فراہم نہیں کر سکے۔ اب، جب کہ بیجنگ نے غیر ملکی چپس کے استعمال پر براہِ راست پابندی لگا دی ہے، Nvidia کے لیے چینی مارکیٹ میں رہنا مزید مشکل ہو جائے گا۔
اس موقع پر چینی کمپنیاں جیسے Huawei اور دیگر مقامی سیمی کنڈکٹر ادارے تیزی سے میدان میں آ رہی ہیں۔ Huawei کا Ascend 910C چپ اس وقت Nvidia کے معروف GPU کا متبادل بننے کی دوڑ میں سب سے آگے ہے۔ دیگر چینی ادارے جیسے Biren اور Moore Threads بھی اپنی پیداوار بڑھانے اور ٹیکنالوجی بہتر کرنے میں مصروف ہیں۔ بیجنگ کا ہدف ہے کہ 2026 تک ملکی AI چپ کی پیداوار تین گنا بڑھائی جائے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ چین صرف غیر ملکی ٹیکنالوجی کا متبادل نہیں بنا رہا بلکہ ایک مکمل ملکی ڈیجیٹل ماحولیاتی نظام (Ecosystem) تشکیل دے رہا ہے، جس میں چپ ڈیزائن، مینوفیکچرنگ، ڈیٹا سینٹر انفراسٹرکچر، سافٹ ویئر اور الگورتھم سب شامل ہوں گے۔ حکومت کا مقصد یہ ہے کہ آئندہ ایک دہائی میں چین مکمل طور پر ’’ٹیکنالوجیکل خود مختاری‘‘ حاصل کر لے۔
یہ سفر آسان نہیں۔ چین ابھی تک کچھ اہم شعبوں — جیسے جدید لِتھوگرافی اور ڈیزائن سافٹ ویئر — میں مغربی کمپنیوں سے پیچھے ہے۔ لیکن ریاستی سرمایہ کاری اور مضبوط پالیسی سپورٹ کے ذریعے یہ خلا بتدریج کم ہو رہا ہے۔
اس فیصلے کے عالمی اثرات بھی نمایاں ہوں گے۔ چونکہ اب چین اپنی AI مارکیٹ کو ملکی ٹیکنالوجی سے جوڑ رہا ہے، اس سے عالمی سپلائی چین دو مختلف نظاموں میں بٹ سکتی ہے — ایک امریکہ اور مغربی کمپنیوں کے زیرِ اثر، اور دوسرا چین کے ماڈل پر مبنی۔
دنیا بھر میں اب مصنوعی ذہانت صرف ٹیکنالوجی نہیں بلکہ ترقی اور دفاع دونوں کے لیے کلیدی حیثیت رکھتی ہے۔ ایسے میں چین کا یہ فیصلہ کہ اس کی ڈیجیٹل بنیادیں صرف مقامی ٹیکنالوجی پر استوار ہوں، اس کے طویل المدتی وژن کو ظاہر کرتا ہے — ایک ایسا وژن جس میں خود انحصاری اور عالمی اثر و رسوخ دونوں مرکزی حیثیت رکھتے ہیں۔
یہ اقدام بظاہر ایک پالیسی فیصلہ ہے، مگر درحقیقت یہ اس نئے دور کا اعلان ہے جہاں چین کی ہر بٹ (bit) اور ہر واٹ (watt) ملکی ترقی اور خود مختاری کے خواب کی تکمیل کے لیے استعمال ہوگی۔
