کراچی کے آرٹس کونسل میں ایک رنگا رنگ اور بین الاقوامی ثقافتی میلہ جاری ہے، جہاں دنیا کے 140 سے زائد ممالک کے فنکار اپنی موسیقی، رقص، مصوری اور ثقافتی روایات کے رنگ بکھیر رہے ہیں۔ اس عالمی میلے کی سب سے خوش آئند بات یہ ہے کہ بنگلہ دیش کے فنکار تقریباً اٹھارہ سال کے وقفے کے بعد پہلی مرتبہ پاکستان پہنچے ہیں۔
ان کی آمد نے فیسٹیول میں ایک نئی روح پھونک دی ہے۔ بنگلہ دیش کی مشہور گلوکارہ شیرین جواد نے اپنے دلکش اندازِ گائیکی سے سامعین کو مسحور کر دیا۔ یہ ان کا پاکستان کا پہلا دورہ تھا، مگر ان کے بقول یہاں کا پیار اور مہمان نوازی اتنی شاندار تھی کہ “یوں لگا جیسے اپنے ہی گھر واپس آگئی ہوں۔” شیرین جواد نے کہا کہ انہیں پاکستانیوں کی محبت، خلوص اور نرم رویہ نے گہرا اثر دیا ہے۔
ابتدائی طور پر انہوں نے صوفی نغمہ پیش کرنے کا ارادہ کیا تھا، مگر آرٹس کونسل کی فرمائش پر انہوں نے ایک بنگالی گیت اور ایک خوبصورت رومانوی گانا “ماتھا والی” پیش کیا — جو چاند، محبت اور احساسات کے گرد گھومتا ہے۔ انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا: “میں سوچتی ہوں کہ یہ ملاقات اتنے برس کیوں نہ ہو سکی، مگر خوشی ہے کہ اب وہ لمحہ آخر آ گیا ہے۔”
اسی طرح بنگلہ دیش کی مصورہ نہاریکا ممتاز نے اپنی پینٹنگز کے ذریعے بنگلہ ثقافت، خواتین کے کردار اور روایتی علامتوں کو اجاگر کیا۔ ان کے شوخ رنگوں اور تخلیقی انداز نے کراچی کے ناظرین کو گہرے تاثر میں لے لیا۔ نہاریکا کے بقول، آرٹس کونسل کی جانب سے ملنے والا یہ موقع “ایک خوبصورت پلیٹ فارم ہے جہاں بنگلہ دیش کے فن کو پاکستان میں پیش کرنا باعثِ فخر ہے۔”
میلے میں بنگلہ دیشی فنکاروں کے علاوہ دیگر نمایاں نام بھی شامل ہیں جن میں سبورنا مرشدہ، فریا چوہدری، شمبو آچاریہ اور بوبلی برنا شامل ہیں۔ ان کے آنے سے دونوں ملکوں کے درمیان فنونِ لطیفہ کا تبادلہ ایک نئی سمت اختیار کر رہا ہے۔ اس سے قبل پاکستانی ڈیزائنرز نے ڈھاکا میں اپنے کام پیش کیے تھے، جسے دونوں ملکوں کے درمیان تخلیقی رابطے کا آغاز سمجھا جا رہا ہے۔
ورلڈ کلچر فیسٹیول کے دوران مختلف ملکوں کے فنون نے ایک دوسرے سے خوبصورت امتزاج پیدا کیا۔ کہیں اوپیرا کی گونج ہے تو کہیں مقامی لوک موسیقی کی مٹھاس، کہیں مصوری کے رنگ بولتے ہیں تو کہیں تھیٹر کی کہانیاں دلوں کو چھو لیتی ہیں۔ ہر گوشہ تخلیق، دوستی اور ہم آہنگی کا پیغام دے رہا ہے۔
آرٹس کونسل کے صدر احمد شاہ کے مطابق، یہ میلہ صرف تفریح نہیں بلکہ انسانیت اور یکجہتی کا مظہر ہے۔ ان کے الفاظ میں: “یہ فیسٹیول اس بات کا ثبوت ہے کہ آرٹ اور ثقافت وہ پل ہیں جو قوموں کو قریب لاتے ہیں، فاصلے گھٹاتے ہیں اور محبت کا رشتہ جوڑتے ہیں۔” ان کا کہنا تھا کہ کراچی میں ہونے والا یہ عالمی اجتماع آرٹس کونسل کے اس عزم کو ظاہر کرتا ہے کہ فنونِ لطیفہ کو سرحدوں سے آزاد کر کے عالمی سطح پر جوڑا جائے۔
میلے کے دوران مقامی تھیٹر کی پیشکش "فلرٹس” نے بھی شائقین سے خوب داد سمیٹی۔ یہ ڈرامہ اپنی دلچسپ کہانی، تیز مکالموں اور شاندار اداکاری کی بدولت نمایاں رہا۔ احمد شاہ کے مطابق، یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ کراچی کا تھیٹر عالمی معیار کے کسی بھی اسٹیج سے کم نہیں۔
اس میلے نے ثابت کیا کہ فن دراصل وہ زبان ہے جو ہر انسان سمجھتا ہے۔ یہ وہاں بات کرتا ہے جہاں الفاظ ختم ہو جاتے ہیں، اور وہ رشتہ بناتا ہے جہاں سرحدیں کھڑی ہو جاتی ہیں۔ ایک ایسے دور میں جب دنیا سیاست اور تنازعات میں الجھی ہے، یہ فیسٹیول یاد دلاتا ہے کہ ثقافت اور تخلیق ہی اصل سفارت کاری ہیں۔
آرٹس کونسل کے ہر کونے میں اس وقت تخلیق کی روشنی ہے — کہیں رقص، کہیں موسیقی، کہیں مصوری، اور کہیں تھیٹر۔ ایک ایسا منظر جو دنیا کے 140 سے زائد ملکوں کے رنگ اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے۔ بنگلہ دیش کے فنکاروں کی واپسی اس بات کی علامت ہے کہ فن کی راہیں ہمیشہ کھلی رہتی ہیں۔
یہ عالمی ثقافتی میلہ صرف چند دنوں کی تقریب نہیں، بلکہ ایک طویل اثر چھوڑنے والا تجربہ ہے — ایک ایسا پل جو لوگوں، ملکوں اور دلوں کو جوڑتا ہے، اور یہ پیغام دیتا ہے کہ جب نیت، جذبہ اور فن ایک ساتھ ہوں تو فاصلے کبھی باقی نہیں رہتے۔
