واشنگٹن: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اعلان کیا ہے کہ قازقستان نے باضابطہ طور پر معاہدہ ابراہیمی (Abraham Accords) میں شمولیت اختیار کر لی ہے، جس کے بعد یہ وسط ایشیا کا پہلا ملک بن گیا ہے جو اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کے اس تاریخی عمل کا حصہ بن رہا ہے۔
وائٹ ہاؤس میں منعقدہ ایک اعلیٰ سطحی اجلاس کے دوران صدر ٹرمپ نے وسط ایشیائی ممالک کے رہنماؤں سے ملاقات کی، جس میں قازقستان کے صدر بھی شریک تھے۔ اس موقع پر صدر ٹرمپ نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ قازقستان ایک شاندار ملک ہے، جس کی قیادت باصلاحیت اور دوراندیش ہے۔
معاہدہ ابراہیمی میں قازقستان کی شمولیت دنیا میں امن، تعاون اور خوشحالی کے فروغ کی سمت ایک بڑا قدم ہے۔صدر ٹرمپ نے مزید کہا کہ ان کی دوسری مدتِ صدارت میں قازقستان معاہدہ ابراہیمی میں شامل ہونے والا پہلا ملک ہے، اور وہ پُرامید ہیں کہ آنے والے دنوں میں مزید مسلم اکثریتی ممالک بھی اس تاریخی امن منصوبے کا حصہ بنیں گے۔
اس اعلان سے قبل امریکی نمائندہ خصوصی برائے مشرقِ وسطیٰ اسٹیو وٹکوف نے گزشتہ روز پیشگی عندیہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ آج رات ایک اور ملک معاہدہ ابراہیمی میں شامل ہونے کا اعلان کرے گا۔معاہدہ ابراہیمی دراصل وہ سفارتی فریم ورک ہے جو صدر ٹرمپ کے پہلے دورِ صدارت میں 2020 میں متعارف ہوا، جس کے تحت اسرائیل نےچارمسلم ممالک متحدہ عرب امارات، بحرین، مراکش اور سوڈان کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے میں کامیابی حاصل کی تھی۔
قازقستان کی شمولیت کو تجزیہ کار مشرقِ وسطیٰ اور وسط ایشیا کے درمیان نئے سفارتی پل کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ ان کے مطابق، یہ پیش رفت نہ صرف اسرائیل کے علاقائی روابط کو وسعت دے گی بلکہ وسط ایشیائی ممالک کے لیے بھی اقتصادی اور دفاعی شراکت داری کے نئے مواقع پیدا کرے گی۔
بین الاقوامی مبصرین کا کہنا ہے کہ قازقستان کی یہ پیش رفت واشنگٹن کے لیے ایک اہم سفارتی کامیابی ہے، جو معاہدہ ابراہیمی کے “دوسرے مرحلے” کی علامت بن سکتی ہے ایک ایسا مرحلہ جس میں مسلم اکثریتی ممالک کی بڑھتی ہوئی شمولیت امن عمل کو نئی سمت دے گی۔
