روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے انکشاف کیا ہے کہ صدر ولادیمیر پوتین کی ہدایت پر ’’ممکنہ روسی جوہری تجربے‘‘ کے لیے تجاویز تیار کرنے پر کام تیزی سے جاری ہے۔
روسی خبر رساں ایجنسی ’تاس‘ کے مطابق کریملن نے یہ قدم اس وقت اٹھایا ہے جب امریکہ کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی فوج کو جوہری تجربات کی بحالی کی مبہم ہدایت جاری کی، لیکن واشنگٹن کی جانب سے اس کی کوئی سرکاری وضاحت سامنے نہیں آئی کہ آیا یہ میزائل لانچنگ ٹیسٹ سے متعلق ہے یا حقیقی جوہری دھماکوں کی دوبارہ شروعات سے متعلق۔ واضح رہے کہ روس اور امریکہ دونوں نے گزشتہ تین دہائیوں سے حقیقی جوہری دھماکہ نہیں کیا۔
روس نے امریکہ سے سخت مطالبہ کیا کہ وہ اپنے متضاد بیانات کی وضاحت کرے، کیونکہ جوہری تجربات کی بحالی عالمی استحکام پر گہرا اثر ڈال سکتی ہے۔
روسی وزارتِ خارجہ کی ترجمان ماریا زاخارووا کا کہنا ہے کہ اگر واشنگٹن کا ارادہ حقیقی جوہری دھماکوں کی جانب ہے تو اس کے خطرناک نتائج برآمد ہوں گے، اور روس سمیت دیگر جوہری طاقتیں مجبوراً ’جوابی اقدامات اٹھائیں گی۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکہ کی جانب سے آنے والے سگنلز پوری دنیا کو تشویش میں مبتلا کر رہے ہیں اور صورتحال کو واضح کرنا ضروری ہے۔
حالات کو مزید سنگین اس لیے بھی سمجھا جا رہا ہے کہ روس اور امریکہ کے درمیان اسٹریٹجک جوہری وارہیڈز کی تعداد محدود کرنے والا آخری معاہدہ صرف تین ماہ میں ختم ہونے والا ہے۔
پوتین نے امریکہ کو تجویز دی ہے کہ اس معاہدے پر ایک سال مزید عمل جاری رکھا جائے، لیکن ٹرمپ حکومت نے تاحال کوئی جواب نہیں دیا۔ دنیا کے سامنے ایک بڑا خطرہ یہ ہے کہ اگر یہ معاہدہ بھی ختم ہوگیا تو عالمی طاقتوں میں ’نئی جوہری ہتھیاروں کی دوڑ‘ پہلے سے کہیں زیادہ تیزی سے بھڑک سکتی ہے۔
