اسلام آباد :پی ٹی آئی کے چیئرمین بیرسٹر گوہر علی خان نے واضح کیا ہے کہ ان کی جماعت اعلان کر چکی ہے کہ آئینی ترمیم کے عمل میں شامل نہیں ہوگی۔ انہوں نے کہا ہے کہ ترمیم کی منظوری کے خلاف جماعت واپسی یا واک آؤٹ کا انتخاب کرے گی، اور ضرورت پڑنے پر مظاہرے اور احتجاج بھی کرے گی۔
پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر میڈیا سے گفتگو کے دوران گوہر علی خان نے مسلم لیگ (ن) کے رہنما خواجہ محمد آصف کو مخاطب کرتے ہوئے سوال کیا کہ کیا آپ نے سابق وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کے خلاف پٹیشن لے کر عدالتِ عالیہ کے سربراہ کے سامنے نہیں گئے تھے؟ انہوں نے مزید کہا کہ میان صاحب خود وکیل بن کر میمو گیٹ کمیشن بنوانے نہیں گئے تھے؟ اور کہا کہ جو ججز ریٹائر ہوئے ہیں، چاہے اچھے ہوں یا برے، ان کے خلاف ایسی زبان استعمال نہ کی جائے کیونکہ یہ لوگ ہمیشہ ریٹائر ہونے والوں کے خلاف ہو جاتے ہیں چاہے حاضر ہوں یا ریٹائرڈ، ججز کے بارے میں ایسے الفاظ مناسب نہیں۔
گوہر علی خان نے کہا کہ سابق وزیر اعظم نواز شریف آئیں یا نہ آئیں، وہ اب پاکستانی سیاست سے غیر متعلق ہوچکے ہیں۔ انہوں نے طنزیہ لہجے میں کہا کہ “نواز شریف تو خیال کر رہے تھے کہ مجھے لا کر ریڈ کارپٹ بچھائی جائے گی، مگر پارلیمنٹ میں نواز شریف کے لیے کسی نے بھی ریڈ کارپٹ نہیں بچھائی۔”
گوہر علی خان نے مزید کہا کہ ترمیمی عمل صرف رسمی کارروائی نہیں بلکہ قومی آئین، وفاقی ڈھانچے اور صوبائی خودمختاری کے بڑے سوالات کو چھو رہا ہے۔ ان کے مطابق، “ہم وہ پالیسی بنائیں گے جسے عوام قبول کریں، صرف اعلان نہیں، عمل ہو ان پالیسیوں کی منظوری نہ ہو جن کے تین سال بعد کہا جائے کہ دہشتگردی دوبارہ سر اٹھا رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ فیصلے بند کمروں میں نہیں بننے چاہئیں بلکہ سیاسی رہنماؤں، قانون سازوں اور عوامی نمائندوں کی شرکت ضروری ہے، تاکہ پالیسیز ہم سب کو قابلِ قبول ہوں۔
پی ٹی آئی کی جانب سے سخت موقف اختیار کیا گیا ہے کہ متوقع آئینی ترمیم، جسے حکومت پیش کرنا چاہتی ہے، صوبائی خودمختاری، عدلیہ کی آزادی اور جمہوری ڈھانچے کے لیے سنگین خطرہ ہے۔ پی ٹی آئی کا کہنا ہے کہ موجودہ پارلیمنٹ فارم 47 پر بنی ہے اور اس میں ترمیم کا اختیار نہیں ہونا چاہیے
حکومت نے ترمیم کی ضرورت اس بنیاد پر بیان کی ہے کہ عدلیہ اور پارلیمنٹ کے مابین بہتر توازن لانا ہے، اور ترجیحی فیصلوں کو جمہوری انداز میں لانا مقصود ہے۔ مگر اپوزیشن جماعتوں نے اس پر شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے۔
