اسلام آباد: سینیٹ کے بعد قومی اسمبلی نے بھی 27ویں آئینی ترمیم کی تمام 59 شقوں کی دو تہائی اکثریت سے منظوری دے دی، جب کہ اپوزیشن جماعتوں نے شدید احتجاج کے بعد ایوان سے واک آؤٹ کر دیا۔
بدھ کو اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق کی زیرِ صدارت اجلاس میں، ترمیم کی منظوری کے دوران پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے اراکین نے ایجنڈے اور بل کی کاپیاں پھاڑ دیں، اسپیکر ڈائس کے سامنے نعرے بازی کی، اور پھر ایوان سے واک آؤٹ کر گئے۔
تاہم جمعیت علمائے اسلام (ف) کے چار اراکین نے اجلاس میں شرکت کی اور ترمیم کی مخالفت میں ووٹ دیا۔
اجلاس میں وفاقی وزیر قانون و انصاف اعظم نذیر تارڑ نے 27ویں آئینی ترمیم کی تحریک پیش کرتے ہوئے کہا کہ سینیٹ نے ترمیم کو دو تہائی اکثریت سے پہلے ہی منظور کر لیا ہے۔ ان کے مطابق، آئین میں ترامیم ایک ارتقائی عمل ہیں، جن کا مقصد ادارہ جاتی ابہامات کا خاتمہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ چیف جسٹس سپریم کورٹ ہی چیف جسٹس آف پاکستان رہیں گے، جبکہ آرٹیکل 6 میں سنگین غداری سے متعلق اہم وضاحتیں شامل کی جا رہی ہیں۔ اب کوئی عدالت آئین شکنی کی توثیق نہیں کر سکے گی۔
وفاقی وزیر کے مطابق، نئی ترمیم کے تحت وفاقی آئینی عدالت کو بھی اس فہرست میں شامل کیا گیا ہے جو آئین شکنی کی توثیق نہیں کر سکے گی۔
واضح رہے کہ دو روز قبل پیر کے روز سینیٹ نے بھی 27ویں آئینی ترمیم کو دو تہائی اکثریت سے منظور کیا تھا۔ چیئرمین سینیٹ سید یوسف رضا گیلانی کی سربراہی میں ہونے والے اجلاس میں ترمیم کی تمام 59 شقوں کی مرحلہ وار منظوری دی گئی۔
ترمیم کے حق میں حکومتی اتحاد کو 64 ووٹ ملے، جبکہ مخالفت میں کوئی ووٹ نہیں آیا۔ رائے شماری کے دوران، پی ٹی آئی کے سینیٹر سیف اللہ ابڑو اور جے یو آئی (ف) کے سینیٹر احمد خان نے بھی حکومتی صف میں کھڑے ہو کر ووٹ دیا، جس سے حکومت کو مطلوبہ اکثریت حاصل ہو گئی۔
سیاسی ماہرین کے مطابق، 27ویں آئینی ترمیم کے ذریعے عدالتی دائرہ اختیار، آئینی تشریح اور آئین شکنی سے متعلق شقوں کو مزید واضح اور مستحکم بنایا گیا ہے، جسے حکومت آئینی ارتقا کا اہم سنگِ میل قرار دے رہی ہے۔
