واشنگٹن :صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ روز اوول آفس میں وہ بل دستخط کر دیا جس نے 43 روز تک جاری رہنے والا امریکی تاریخ کا طویل ترین حکومتی شٹ ڈاؤن باضابطہ طور پر ختم کر دیا۔ اس اقدام کے فوراً بعد وفاقی اداروں کی محدود بحالی کا عمل شروع ہو گیا اور لاکھوں وفاقی ملازمین جمعرات سے اپنی نوکریوں پر واپس آنے لگیں، جبکہ متاثرہ عوام کو فوری ریلیف فراہم کرنے کے لیے خوراکی امدادی پروگرام بھی دوبارہ فعال کر دیے گئے۔
اس عارضی فنڈنگ بل کو سینیٹ نے پہلے منظور کیا تھا اور بعد ازاں ریپبلکن کنٹرول شدہ ایوانِ نمائندگان نے 222 کے حق میں اور 209 مخالفت میں کے ووٹ سے منظوری دی،اس ووٹنگ میں 6ڈیموکریٹس نے بھی حکومتی فنڈنگ بحال کرنے کےحق میں ووٹ دیا، جب کہ دو ریپبلکن بل کے خلاف گئے۔ بل صدر کے دستخط کے بعد قانون بن گیا اور حکومت کو 30 جنوری تک آپریشنل رکھنے کی منظوری ملی، جس کا مقصد ایمرجنسی بنیادوں پر اہم سرکاری خدمات کی بحالی اور بیک پے کی منظوری تھا۔
صدر ٹرمپ نے بل پر دستخط سے قبل اوول آفس میں کہا، آج ہم ایک واضح پیغام بھیج رہے ہیں کہ ہم کبھی بھی بھتہ خوری کے آگے نہیں جھکیں گےان الفاظ پر ان کے سامنے کھڑے ریپبلکن قانون سازوں نے تالیوں سے حمایت کا اظہار کیا۔ اس تقابلی موقف میں صدر نے ڈیموکریٹس پر الزام عائد کیا کہ وہ سیاسی مطالبات کی بنیاد پر حکومت کو بند رکھ کر معاشی اور سماجی دباؤ پیدا کر رہے تھے۔ فرانسیسی خبر رساں ادارے کے مطابق صدر کے اس اندازِ تقریر نے حزبِ اختلاف میں سخت ردِ عمل کو جنم دیا۔
وفاقی ملازمین میں لاکھوں وفاقی کارکنان نے کئی ہفتوں تک تنخواہ نہیں پائی، کچھوں کو جبری چھٹیاں اختیار کرنی پڑیں اور کئی خاندانوں کی مالی حالت کمزور ہوئی بل کے تحت ان ملازمین کو بقایا تنخواہیں بطورِ پیچھے کی ادائیگی فراہم کی جائیں گی جس سے فوری طور پر عارضی ریلیف ملے گا۔
سروسز اور سفرمیں ایئر ٹریفک کنٹرول کے جزوی منجمد ہونے سے پروازوں میں تاخیریں اور منقطع سہولیات پیدا ہوئیں؛ بل کے بعد کنٹرول سسٹمز کی مکمل بحالی کے لیے عملدرآمد جاری ہے تاکہ موسمِ تعطیلات میں سفر معمول کے مطابق ہو سکے۔
غذائی امداد اور سماجی پروگرام شٹ ڈاؤن کے باعث رُکی ہوئی فوڈ اسسٹنس اسکیمیں دوبارہ چلائی جائیں گی، جس سے کم آمدنی والے خاندانوں کو فوری خوردنی امداد ملنی شروع ہو جائے گی۔
اس معاہدے نے تو وقتی طور پر سرکاری سرگرمیوں کو بحال کیا، مگر بنیادی سیاسی جھگڑا برقرار ہے ڈیموکریٹس نے یہ مؤقف اختیار کیا کہ طویل تعطل کے باوجود وہ اپنی اہم شرط یعنی اَفورڈ ایبل کیئر ایکٹ (ACA) کے تحت مہیا کی جانے والی صحتِ عامہ سبسڈیز کی توسیع پر زور دیتے رہے، مگر یہ بل اس میں ناکام رہا۔ سینٹ میں منظور ہونے والا معاہدہ مستقبل میں ان سبسڈیز کے بارے میں ایک رائے شماری یا الگ ووٹ کا وعدہ کرتا ہے، مگر اس کی کامیابی یقینی نہیں۔ نتیجتاً، صحتِ عامہ کے مسائل اور انشورنس سبسڈیز کا معاملہ اب اگلا بڑا محاذ بن گیا ہے۔
قیمت اور معاشی نقصان: شٹ ڈاؤن کے دوران ملکی معیشت کو بھی نقصان پہنچامختلف اور معتبر تجزیوں نے اندازہ لگایا کہ اس تعطل نے جی ڈی پی پر منفی اثرات مرتب کیے ہیں اور کئی ضروری اقتصادی اعداد و شمار تاخیر کا شکار ہوئے۔ کچھ رپورٹس نے اس بحران کے براہِ راست اور بالواسطہ اقتصادی اخراجات کا تخمینہ بھی لگایا؛ تاہم مکمل اور حتمی معاشی اثرات کا اندازہ آنے والے ہفتوں میں واضح ہوگا۔
قانونی اور عملی عملدرآمد عارضی فنڈنگ کے باوجود وفاقی اداروں کی مکمل ری اسٹارٹنگ میں وقت درکار ہوگا متعدد ایجنسیوں نے عملے کو بحال کرنے، کنٹریکٹس سے متعلق پیچیدہ امور سلجھانے اور معمول کے مطابق خدمات بحال کرنے کے لیے اندرونی آپریشنل شیڈولز مرتب کیے ہیں۔ سابقہ تجربات سے معلوم ہے کہ حتیٰ کہ بل کے فورا بعد بھی بعض خدمات کو مکمل طور پر فعال ہونے میں چند دن یا ہفتے لگ سکتے ہیں، خاص طور پر جہاں لاجسٹک یا حفاظتی مسائل ہوں
شٹ ڈاؤن کے خاتمے پر عام طور پر ریلیف کا اظہار کیا جا رہا ہے وفاقی ملازمین نے خوشی اور تسکین کا اظہار کیا، جب کہ کچھ امریکی حلقوں نے قانونی اور سیاسی نقصان پر تشویش کا اظہار کیا اور سوال اٹھایا کہ آئندہ ایسے بحرانوں سے بچنے کے لیے طویل مدتی حل کیا ہوں گے۔ کانگریس میں اگلے ہفتوں میں صحتِ عامہ سبسڈی، بجٹ مذاکرات اور ممکنہ اصلاحات پر سخت بحث متوقع ہے، جس سے یہ تنازع ابھی ختم نہیں ہوا بلکہ ایک نئے سیاسی مرحلے میں داخل ہو چکا ہے۔
