پاکستان کی عدالتی اور سیاسی تاریخ ایک بار پھر ہلچل کا شکار ہوگئی ہے جب سپریم کورٹ کے دو سینئر جج — جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس اطہر من اللّٰہ — نے اچانک اپنے عہدوں سے استعفیٰ دے دیا۔ ان دونوں کے استعفوں نے نہ صرف عدالتی حلقوں بلکہ پورے ملک میں ایک غیر معمولی بحث کو جنم دیا ہے۔ قانونی ماہرین اس واقعے کو پاکستان کی عدلیہ کی آزادی اور آئینی وقار کے لیے ایک نازک موڑ قرار دے رہے ہیں۔
یہ ہلچل ستائیسویں آئینی ترمیم کی منظوری کے بعد سامنے آئی، جو پارلیمان نے دو تہائی اکثریت سے شور شرابے کے دوران منظور کی۔ اس ترمیم کے تحت ایک نیا ادارہ — وفاقی آئینی عدالت (Federal Constitutional Court) — قائم کیا گیا ہے، جو اب آئین کی تشریح کا حتمی اختیار رکھتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ سپریم کورٹ، جو اب تک ملک کی اعلیٰ ترین عدالتی اتھارٹی تھی، آئینی معاملات میں ایک ماتحت کردار ادا کرے گی۔ متعدد قانونی ماہرین کے مطابق یہ قدم عدلیہ کی خودمختاری پر ایک کھلی ضرب ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے صدرِ مملکت کو لکھے گئے اپنے استعفے میں اس ترمیم کو “آئین پر براہِ راست حملہ” قرار دیا۔ اُنہوں نے کہا کہ وہ ایسے نظام کا حصہ نہیں رہ سکتے جہاں آئین کو سیاسی مفادات کے تابع کر دیا جائے۔ اُن کے بقول، “میری وفاداری آئین سے ہے، کسی حکومت یا وقتی طاقت سے نہیں۔” اپنی اصلاحی سوچ اور عدالتی اصلاحات کے لیے مشہور جسٹس منصور نے افسوس ظاہر کیا کہ عدلیہ کو اب ایک علامتی ادارہ بنا دیا گیا ہے جو عوام کے بنیادی حقوق کی بجائے محض رسمی فیصلے دینے تک محدود ہو گئی ہے۔
اسی طرح جسٹس اطہر من اللّٰہ نے بھی اپنے استعفے میں اس ترمیم کو “آئینی ڈھانچے کی مسخ شدہ شکل” قرار دیا۔ اُنہوں نے کہا کہ ایک جج کا حلف اُسے آئین کی حفاظت کا پابند بناتا ہے، نہ کہ اُن لوگوں کی خوشنودی کا جو وقتی طاقت رکھتے ہیں۔ عدالتی مبصرین کے مطابق دونوں جج صاحبان اُن چند ججوں میں شامل تھے جنہوں نے حالیہ برسوں میں عدلیہ کے اندرونی دباؤ اور سیاسی مداخلت کے خلاف آواز اٹھائی تھی۔ اُن کے بیک وقت مستعفی ہونے سے یہ تاثر مضبوط ہوا ہے کہ عدلیہ اپنی خودمختاری کھو چکی ہے۔
نئی ترمیم کے نتیجے میں چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کے اختیارات بھی محدود ہو گئے ہیں۔ اگرچہ انہیں “چیف جسٹس آف پاکستان” کا لقب برقرار رکھا گیا ہے، مگر آئینی معاملات میں فیصلہ کن طاقت اب وفاقی آئینی عدالت کے پاس چلی گئی ہے۔ قانونی ماہرین کے مطابق یہ اقدام چیف جسٹس کے منصب کو علامتی بنا دیتا ہے۔ معروف وکلا *فیصل صدیقی، *عبدالمعیز جعفری اور بیرسٹر صلاح الدین احمد نے اس ترمیم کو “شخصی مفاد پر مبنی قانون سازی” قرار دیا ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ اس ترمیم کے کچھ حصے مخصوص شخصیات کو فائدہ دینے کے لیے تیار کیے گئے ہیں، جو عدالتی نظام کی شفافیت پر سوال اٹھاتے ہیں۔
بیرسٹر صلاح الدین احمد نے اس ترمیم کو پاکستان کی ماضی کی “آئینی تجربہ گاہوں” سے تشبیہ دیتے ہوئے کہا کہ “شخصی نوعیت کی قانون سازی ہمیشہ تاریخ کے کچرے میں پھینک دی جاتی ہے۔” فیصل صدیقی کے مطابق یہ قانون وقتی طور پر کچھ شخصیات کے لیے فائدہ مند ہوسکتا ہے، مگر اس سے عدلیہ کے اجتماعی اختیار کو شدید نقصان پہنچا ہے۔
وزیرِ اعظم شہباز شریف نے ترمیم کی منظوری کے بعد چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ “یہ اقدام آئینی ڈھانچے کو مضبوط بنانے کی ایک اہم پیش رفت ہے۔” تاہم، وکلاء تنظیموں اور عدالتی برادری نے حکومت کے اس مؤقف کو مسترد کرتے ہوئے اسے عدلیہ کی آزادی پر حملہ قرار دیا ہے۔ پاکستان بار کونسل اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے اعلان کیا ہے کہ وہ اس ترمیم کو قبول نہیں کرتے اور اس کے خلاف آئینی جدوجہد کریں گے۔
سابق اٹارنی جنرل اور کئی سینئر قانون دانوں نے اس ترمیم کو آٹھویں آئینی ترمیم سے تشبیہ دی ہے جو جنرل ضیاء الحق کے دور میں نافذ ہوئی تھی اور جس نے اختیارات کو ایگزیکٹو کے ہاتھ میں مرکوز کر دیا تھا۔ اُن کے مطابق موجودہ ترمیم بھی اسی نوعیت کی ہے جو ریاستی طاقت کے توازن کو بگاڑتی ہے اور جمہوری اصولوں کو کمزور بناتی ہے۔
عوامی سطح پر بھی اس معاملے نے شدید ردعمل پیدا کیا ہے۔ سوشل میڈیا پر ہزاروں صارفین نے ججز کے استعفوں کو “عدلیہ کی بقا کی آخری کوشش” قرار دیا۔ مختلف وکلا تنظیموں نے ملک گیر احتجاج کا اعلان کیا ہے، جبکہ قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر اس ترمیم کو واپس نہ لیا گیا تو مستقبل میں عدلیہ اور ایگزیکٹو کے درمیان تصادم بڑھ سکتا ہے۔
ماہرینِ قانون اور سابق ججز کا کہنا ہے کہ یہ بحران محض آئینی یا قانونی نہیں بلکہ پاکستان کی جمہوری شناخت کا امتحان ہے۔ عدلیہ ہمیشہ سے ریاستی طاقتوں کے درمیان توازن برقرار رکھنے کا ذریعہ رہی ہے، لیکن وفاقی آئینی عدالت کے قیام کے بعد یہ توازن واضح طور پر حکومت کے حق میں جھک گیا ہے۔
فی الحال، جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس اطہر من اللّٰہ کے استعفے عدالتی آزادی کی جدوجہد کی علامت بن چکے ہیں۔ یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ ان کے اس فیصلے کے نتیجے میں کوئی بڑی عدالتی تحریک جنم لے گی یا نہیں، مگر ایک بات طے ہے کہ یہ واقعہ پاکستان کی آئینی تاریخ کے اُن نازک ابواب میں شامل ہو چکا ہے جو آنے والے برسوں تک زیرِ بحث رہیں گے — وہ ابواب جو یہ طے کریں گے کہ اس ملک میں انصاف کی بنیاد آئین پر ہوگی یا اختیار پر۔
