اسلام آباد:سپریم کورٹ آف پاکستان میں ایک بڑی آئینی ہلچل پیدا ہوگئی ہے، جب دو سینئر ججز جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس اطہر من اللّٰہ نے اپنے عہدوں سے استعفیٰ دے دیا۔ دونوں ججز نے اپنے استعفے صدرِ مملکت آصف علی زرداری کو ارسال کیے ہیں، جن میں انہوں نے 27ویں آئینی ترمیم کو عدلیہ کی آزادی اور آئین کی روح پر براہِ راست حملہ قرار دیا ہے۔ اس ترمیم کے ذریعے سپریم کورٹ کے دائرہ اختیار، بینچ کی تشکیل اور انتظامی امور میں نمایاں تبدیلیاں کی گئی ہیں، جنہیں عدالتی حلقوں میں جوڈیشل ریفارمز کے نام پر مداخلت کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے اپنے استعفے میں لکھا کہ انہوں نے گیارہ سال قبل اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج کے طور پر حلف اٹھایا، بعدازاں چیف جسٹس اور پھر سپریم کورٹ کے جج کے طور پر خدمات انجام دیں۔ انہوں نے کہا کہ “میں نے ہر مرتبہ آئینِ پاکستان سے وفاداری کا وعدہ کیا، لیکن اب وہ آئین اپنی اصل شکل میں موجود نہیں رہا۔” جسٹس اطہر من اللّٰہ نے اپنے استعفے میں انکشاف کیا کہ انہوں نے 27ویں آئینی ترمیم سے قبل اُس وقت کے چیف جسٹس کو ایک خط کے ذریعے متنبہ کیا تھا کہ یہ تبدیلی عدلیہ کی خودمختاری کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتی ہے، لیکن اُن خدشات کو نظر انداز کیا گیا، اور آج وہی خدشات حقیقت کا روپ دھار چکے ہیں۔
انہوں نے مزید لکھا کہ جو چُغہ ہم پہنتے ہیں، وہ محض رسمی لباس نہیں بلکہ عوام کے اعتماد کی علامت ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب یہ لباس خاموشی اور بے عملی کی علامت بن گیا، انصاف کی روح زخمی ہوئی۔ میں آج یہ چُغہ آخری بار اتار رہا ہوں، اس امید کے ساتھ کہ آنے والے ججز سچائی اور دیانت کے ساتھ فیصلے کریں گے۔
دوسری جانب، جسٹس منصور علی شاہ نے اپنے تیرہ صفحات پر مشتمل استعفے میں واضح کیا کہ 27ویں آئینی ترمیم عدلیہ کو حکومت کے تابع بنانے کی سازش ہے۔ ان کے مطابق، یہ ترمیم سپریم کورٹ کو تقسیم کر چکی ہے اور پاکستان کے آئینی ڈھانچے کو کمزور کر رہی ہے۔ انہوں نے چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ “آپ ادارے کے محض ایڈمنسٹریٹر نہیں بلکہ گارڈین ہیں، یہ وہ لمحہ ہے جب قیادت کی ضرورت ہے، خاموشی کی نہیں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے مزید کہا کہ عدلیہ کی یکجہتی اور آئین کی بالادستی ہی جمہوریت کے تسلسل کی ضمانت ہے۔ ان کے مطابق، “یہ لمحہ عدالتی تاریخ میں فیصلہ کن حیثیت رکھتا ہے، اگر ہم متحد نہ ہوئے تو ہماری آزادی اور عوام کا عدلیہ پر اعتماد دونوں خطرے میں پڑ جائیں گے۔
قانونی اور آئینی ماہرین نے دونوں ججز کے بیک وقت استعفے کو عدالتی تاریخ کا سنگ میل قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ اقدام آئینی آزادی کی بقا اور عدلیہ کی خودمختاری کے لیے ایک خاموش مگر مضبوط پیغام ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق، اس واقعے کے بعد حکومت اور عدلیہ کے درمیان تناؤ میں مزید شدت آنے کا خدشہ ہے، جبکہ سپریم کورٹ کے اندر بھی تقسیم کی نئی لکیریں کھنچ سکتی ہیں۔
دونوں ججز نے اپنے استعفوں کے آخر میں یہ عہد کیا کہ وہ آئین، قانون اور انصاف کی سربلندی کے لیے ہمیشہ کھڑے رہیں گے۔ ان کے بقول، ہم نے فرد سے نہیں، آئینِ پاکستان سے وفاداری کا حلف لیا تھا، اور آج وہی حلف ہمیں اس فیصلے پر مجبور کر رہا ہے کہ ہم اپنے منصب سے الگ ہو جائیں، مگر سچائی اور انصاف کے لیے اپنی آواز بلند کرتے رہیں۔
