شیخوپورہ، پاکستان: بھارت کی ایک سکھ خاتون یاتری سربجیت کور، جو بابا گرو نانک کے جنم دن کی تقریبات میں شرکت کے لیے پاکستان آئی تھیں، چند روز کی گمشدگی کے بعد اسلام قبول کر کے مقامی شہری سے شادی کرنے کی اطلاع نے نہ صرف سکھ مذہبی حلقوں بلکہ سرکاری اور عوامی سطح پر بھی ہلچل مچادی ہے۔
سربجیت کور، جو کپورتھلہ، بھارتی پنجاب کی رہائشی ہیں اور 48 سال کی ہیں، 4 نومبر کو تقریباً 200 یاتریوں کے ہمراہ اٹاری واہگہ بارڈر کے ذریعے پاکستان میں داخل ہوئیں۔ یہ گروہ بابا گرو نانک کی پرکاش پروب تقریبات میں شرکت اور ننکانہ صاحب، کرتارپور اور دیگر مقدس مقامات کی زیارت کے لیے آیا تھا۔ زیادہ تر یاتری 13 نومبر کو واپس بھارت لوٹ گئے، تاہم سربجیت کور ان میں شامل نہیں تھیں، جس کے بعد بھارتی اور پاکستانی حکام نے ان کی تلاش شروع کر دی تھی۔
بعد ازاں نکاح نامے کے ذریعے تصدیق ہوئی کہ سربجیت کور نے اسلام قبول کیا اور اپنا نام ’نور‘ رکھا۔ انہوں نے 42 سالہ پاکستانی شہری ناصر حسین سے 5 نومبر کو فاروق آباد، ضلع شیخوپورہ میں نکاح کیا، جس میں 10 ہزار روپے حق مہر ادا کیا گیا۔ نکاح نامے میں سربجیت کور نے خود کو مطلقہ اور دو بچوں کی ماں ظاہر کیا ہے۔ ان کے سابق شوہر کرنیل سنگھ تقریباً 30 برس سے برطانیہ میں مقیم ہیں۔
بھارتی اہل خانہ کے مطابق خاتون کی گمشدگی کی خبر پر پنجاب پولیس اور مرکزی ایجنسیاں حرکت میں آئیں، جبکہ بھارتی مشن پاکستان سے مسلسل رابطے میں ہے۔ پاکستانی حکام نے تصریح کی کہ سربجیت کور نے اپنی صوابدیدی مرضی سے مذہب تبدیل کیا اور شادی کی، اور امیگریشن و سیکیورٹی ادارے معاملے کی معمول کی قانونی کارروائی کر رہے ہیں۔
یہ واقعہ سوشل میڈیا، سرکاری اور مذہبی حلقوں میں بحث کا موضوع بن گیا ہے، جہاں انسانی حقوق، ذاتی آزادی اور مذہبی تبدیلی کے معاملات زیر بحث ہیں۔ اس نے نہ صرف یاتری پروگرام کے انتظامات کو چیلنج کیا بلکہ دونوں ممالک کے تعلقات اور سرحدی سکیورٹی کے حساس پہلوؤں پر بھی روشنی ڈالی ہے۔
سربجیت کور کا اقدام مذہبی آزادی، ذاتی انتخاب اور بین الاقوامی یاتری پروگرامز کے ضمنی اثرات پر سوالات کو اجاگر کرتا ہے، اور اس کے سیاسی و سماجی پہلوؤں پر تجزیے جاری ہیں۔
