جناب اطہر من اللہ ججز بحالی موومنٹ کے دور جدوجہد کے دوران فرنٹ لائن کے ساتھی رہے، جج بننے کے بعد کبھی ملاقات ہوئی نہ سامنا۔میرے نزدیک وہ عدلیہ کے گِنے چنے دیانتدار اور up right لوگوں میں سے ہیں۔
جسٹس شوکت صدیقی کی جبری برطرفی پر ان کی خاموشی ان کے جاننے والوں کیلئے تعجب کا باعث تھی ، جسٹس ثاقب نثار اور جنرل باجوہ کے عہد ِ عمرانی میں دوران اسیری ہمارے پروڈکشن آرڈرز کے معاملہ پر وہ ہمیں انصاف دینے کی بجائے پارلیمنٹ کا معاملہ پارلیمنٹ میں طے کرنیکا کہ کر خاموشی سے پیچھے ہٹ گئے بہر حال انکی قدر اور احترام دل میں موجود رہے۔
جسٹس منصور علی شاہ کو بطور چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ شاندار کام کرتے دُور سے دیکھا ہے ، وہ بلاشبہ کسی دباؤ کو خاطر میں لائے بغیر اپنا کام کرتے ہیں ،ایک زمانہ انکی قابلیت اور دیانتداری کا معترف ہے۔
اسی طرح جسٹس شمس محمود مرزا کا شمار لاہور ہائیکورٹ میں اچھی ساکھ کے حامل ججز میں کیا جاتا ہے، خبر ہے کہ وہ بھی مستعفی ہوگئے ہیں۔
سابقہ رائل پام کنٹری کلب کی مینجمنٹ اور پاک ریلویز کے مابین مقدمہ میں بطور چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ جناب منصور علی شاہ کے قریبی ساتھی جناب جسٹس شمس محمود مرزا کے قلم سے پاکستان ریلوے کو انصاف نہیں دیا گیا ، ہماری پے در پے قانونی فریادوں کے باوجود ریلوے سے قبضہ واپس لیکر فراڈیا گروپ کو دیدیا گیا جسکی ریلوے نے بھاری قیمت ادا کی۔
گوجرانوالہ میں ایک متروک ریلوے سٹیشن کی جگہ بنک سکوائر کی تعمیر کے معاملہ پر جسٹس منصور علی شاہ کا فیصلہ ہمارے نزدیک حقائق کے برعکس تھا جسکا محکمہ ریلوے کو بہت نقصان ہوا اور مجھے بطور وزیر ِ ریلوے اسکا بہت افسوس ہوا۔
ہمارے گلے شکووں سے قطع نظر ان جج صاحبان کی قابلیت اور عمومی انصاف پسندی کا میں ہمیشہ قائل رہا ہوں۔
اسی طرح جسٹس شمس محمود مرزا پر جناب سلمان اکرم راجہ سے رشتہ داری کا الزام عائد کرنا طفلانہ حرکت ہے۔ ہمارے علم کیمطابق رشتہ داری کبھی انکے کام میں خلل انداز نہیں ہوئی۔
صورتحال یہ ہے کہ کچھ عرصہ پیشتر بھی سپریم کورٹ کے دو تین ججز استعفے دے چکے ہیں لیکن اب مستعفی ہونیوالے ججز کے استعفوں کو پہلے استعفوں کے ساتھ ملانا یا جوڑنا ناانصافی ہوگا۔ہمارے نزدیک عدالتی توازن کیلئے ان حضرات کا دم غنیمت تھا۔
چنانچہ بطور ایک سیاسی کامریڈ مجھے ان جج صاحبان کے استعفوں پر دلی افسوس ہوا ہے۔ ججز کے تازہ ترین استعفوں کو دھڑے بندی کی سیاست کی عینک سے دیکھا جائےتو منظر سہانا دکھائ دیتا ہے لیکن غیر جانبدارانہ نظر سے دیکھا جائے تو یہ استعفے پاکستان میں آئین،انصاف، قانون اور جمہوریت کی بالادستی کا خواب دیکھنے والے ہر فرد کیلئے لمحۂِ فکریہ ھیں۔
نظر آ رہا ہے کہ استعفوں کا یہ سلسلہ یہاں نہیں رُکے گا بلکہ عدلیہ سے ہوتا ہوا پارلیمنٹ تک جائیگا۔ یاد رکھنا چاہیے کہ ہر مخالف کو پکڑا جا سکتا ہے اور نہ ہی ملک دشمن قرار دیا جاسکتا ہے۔
ایک ذمہ دار ریاست معاملات کو ٹھنڈا رکھتی ہے، دشمنوں میں گھِرا نیوکلئیر پاکستان آخر کہاں تک اور کب تک اندرونی محاذ آرائی کا متحمل ہو گا ؟ دیرینہ تنازعات کے حل کیلئے نئے تنازعات کو جنم دینا دانشمندی نہیں کہلاتا۔۔ان استعفوں پرخوشی کے ڈھول پیٹنے کی بجائے، پیدا ہونیوالی فالٹ لائینز پُر کرنے کی فِکر کرناہی مناسب عمل ہو گا۔
