آسٹریلیا نے افغانستان میں سنگین انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور طالبان کے مبینہ جرائم کے احتساب کے لیے نئی سخت پابندیوں کی باقاعدہ تجاویز پیش کر کے عالمی سطح پر ایک اہم سفارتی بحث چھیڑ دی ہے۔ آسٹریلوی حکومت کے مطابق طالبان کی جانب سے خواتین اور بنیادی شہری آزادیوں پر لگائی گئی پابندیاں بین الاقوامی قوانین کے تحت نہ صرف حقوقِ انسانی کی سنگین خلاف ورزیاں ہیں بلکہ متعدد معاملات میں یہ اقدامات جرمِ انسانیت کی تعریف پر بھی پورا اترتے ہیں۔
آسٹریلیا کی وزارتِ خارجہ اس وقت طالبان پر عائد پابندیوں کے پرانے قوانین میں اہم ترامیم پر غور کر رہی ہے۔ ان ترامیم کے بعد پہلی بار افغانستان کے لیے خصوصی معیار متعارف کرائے جائیں گے، جن کی بنیاد پر طالبان کے اعلیٰ عہدیداروں پر سفری پابندیاں، ویزہ پابندیاں، مالیاتی پابندیاں اور بین الاقوامی سفارتی روابط کی بندش جیسے اقدامات ممکن ہوجائیں گے۔
ان تجاویز کو عالمی انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے بھی مکمل طور پر سراہا ہے۔
ہیومن رائٹس واچ کے آسٹریلیا میں ڈائریکٹر نے واضح کہا کہ یہ ترامیم طالبان کو ان سنگین جرائم پر جوابدہ بنانے کی سمت ایک مضبوط اور ضروری قدم ہیں۔ افغانستان میں خواتین پر عائد پابندیاں، ان کی تعلیم، ملازمت اور آزادانہ زندگی پرقدغنیں صرف ظلم نہیں بلکہ صنفی بنیاد پر سنگین تشدد ہیں، جنہیں عالمی سطح پر روکنا ضروری ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر آسٹریلیا کی یہ تجاویز اپنائی جاتی ہیں تو یہ نہ صرف طالبان کے بین الاقوامی تعلقات کو متاثر کریں گی بلکہ عالمی برادری کی جانب سے افغانستان میں انسانی حقوق کے تحفظ کے سلسلے میں ایک نئے دور کا آغاز بھی ہوگا۔
دوسری جانب افغان معاشرے میں خواتین کی تعلیم، روزگار اور نقل و حرکت پر سخت پابندیوں کے خلاف عالمی آوازیں پہلے ہی بلند ہیں۔ آسٹریلوی تجاویز اس بڑھتی ہوئی تشویش کو عملی شکل دینے کی طرف اہم قدم بن سکتی ہیں۔
یہ پیش رفت ایسے وقت سامنے آئی ہے جب دنیا بھر میں افغانستان کی صورتحال پر تشویش بڑھ رہی ہے، جبکہ طالبان حکومت پر انسانی حقوق کی پامالیوں کے باعث دباؤ میں اضافہ ہو رہا ہے
