اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں پیش کی گئی تازہ بریفنگ میں عالمی برادری کو خبردار کیا گیا ہے کہ تحریکِ طالبان پاکستان (TTP) نہ صرف پاکستان بلکہ پورے خطے کے امن و استحکام کے لیے ایک سنگین اور بڑھتا ہوا خطرہ بن چکی ہے۔ ڈنمارک کی ڈپٹی مستقل نمائندہ ساندرا جینسن لینڈی نے اپنی بریفنگ میں واضح کہا کہ TTP آج افغانستان کی سرزمین سے نہ صرف منظم انداز میں فعال ہے بلکہ اسے افغانستان کی ڈی فیکٹو اتھارٹیز کی جانب سے لاجسٹک اور عملی معاونت بھی حاصل ہے، جو اس گروہ کی کارروائیوں کو مزید مضبوط کر رہی ہے۔
انہوں نے سلامتی کونسل کو بتایا کہ TTP کے کم از کم 6 ہزار سے زائد جنگجو افغانستان میں سرگرم ہیں جو سرحد پار دہشتگردی کے ذریعے پاکستان میں بڑے پیمانے پر جانی نقصان کا سبب بن رہے ہیں۔ لینڈی نے کہا کہ پاکستان بارہا عالمی برادری کو خبردار کر چکا ہے کہ افغانستان کی سرحد کے اُس پار موجود دہشتگرد گروہوں کی محفوظ پناہ گاہیں اس کی قومی سلامتی کے لیے ایک انتہائی پریشان کن اور خطرناک صورتحال پیدا کر رہی ہیں۔
پاکستان کے نائب مستقل مندوب عثمان جدون نے بھی بریفنگ کے دوران اپنی گفتگو میں اس بات کی تصدیق کی کہ TTP، داعش خراسان اور بلوچستان لبریشن آرمی (BLA) جیسے گروہ پاکستان کے لیے بڑھتا ہوا سیکیورٹی خطرہ ہیں۔ انہوں نے زور دیا کہ اقوامِ متحدہ کے 1267 پابندیوں کے نظام کو مزید مؤثر، سخت اور کارآمد بنایا جائے تاکہ ان دہشتگرد گروہوں کو ملنے والی سرحد پار معاونت، مالی سپورٹ اور پناہ گاہوں کا سلسلہ ختم ہو سکے۔
بریفنگ میں یہ نکتہ بھی واضح طور پر اٹھایا گیا کہ پاکستان طویل عرصے سے اس تشویش کا اظہار کرتا رہا ہے کہ افغانستان میں موجود دہشتگرد گروہوں کی آزادانہ سرگرمیاں نہ صرف پاکستان بلکہ پورے جنوبی اور وسطی ایشیا کے لیے ایک بڑا سیکیورٹی چیلنج بنتی جا رہی ہیں۔ عالمی نمائندوں نے اس صورتحال کو خطے کے امن کے لیے بڑھتا ہوا خطرہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اگر اسے فوری طور پر نہ روکا گیا تو خطے میں مزید بدامنی، دہشتگرد حملوں میں اضافہ اور سیاسی عدم استحکام کے خدشات بڑھ سکتے ہیں۔
سلامتی کونسل پر اس موقع پر یہ زور بھی دیا گیا کہ وہ خطے کی سلامتی کو لاحق اس بڑھتے ہوئے خطرے کے خلاف فیصلہ کن، عملی اور فوری اقدامات کرے تاکہ افغانستان کی سرزمین کو کسی بھی دہشتگرد نیٹ ورک کے استعمال سے روکا جا سکے اور جنوبی و وسطی ایشیا میں دیرپا امن اور استحکام یقینی بنایا جا سکے۔
