نئی دہلی: جمعیت علمائے ہند کے صدر اور دارالعلوم دیوبند کے سینئر ترین استاد مولانا ارشد مدنی کا ایک بیان بھارت میں سیاسی اور سماجی حلقوں میں ہلچل کا باعث بن گیا ہے۔ مولانا مدنی نے اپنے خطاب میں کہا کہ موجودہ بھارت میں مسلمانوں کے لیے حالات اس حد تک محدود کر دیے گئے ہیں کہ وہ نیویارک یا لندن جیسے عالمی شہروں کے میئر تو بن سکتے ہیں، مگر اپنے ہی ملک میں ایک یونیورسٹی کے وائس چانسلر کے منصب تک رسائی بھی ان کے لیے تقریباً ناممکن بنا دی گئی ہے۔ سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والے اس بیان کے بعد بھارتی میڈیا نے بھی اسے نمایاں طور پر رپورٹ کیا، جس کے بعد حکومتی ایوانوں میں شدید بے چینی پیدا ہو گئی ہے۔
دہلی میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے مولانا ارشد مدنی کا کہنا تھا کہ حکومت کا رویہ مسلمانوں کے خلاف ایک منظم حکمت عملی کا حصہ محسوس ہوتا ہے، جس کا مقصد انہیں سیاسی، تعلیمی اور انتظامی طور پر کمزور رکھنا ہے۔ انہوں نے الزام لگایا کہ اگر کوئی مسلمان اپنی محنت سے کسی اعلیٰ منصب تک پہنچ بھی جائے تو اسے فوراً نشانہ بنایا جاتا ہے، جیسا کہ اعظم خان کے ساتھ ہوا، انہیں وائس چانسلر بننے کے کچھ ہی عرصے بعد جیل بھیج دیا گیا۔
مولانا مدنی نے الفلاح یونیورسٹی کے واقعے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ادارے کے مالک طویل عرصے سے جیل میں قید ہیں، مگر کیس ابھی تک مکمل ثابت نہیں ہو سکا، جو عدالتی نظام پر سوال اٹھاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ کیسا انصاف ہے کہ ایک شخص برسوں جیل میں سڑتا رہے اور اس کے خلاف الزامات ثابت کرنے میں ابھی بھی کئی سوالات موجود ہوں؟
انہوں نے مزید کہا کہ بھارت کی آزادی کو 75 سال گزرنے کے باوجود مسلمان تعلیم، قیادت اور طاقت کے بڑے ڈھانچوں سے خود کو مسلسل باہر محسوس کرتے ہیں۔ ان کے مطابق یہ صورتحال کسی اتفاق کا نتیجہ نہیں بلکہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت پیدا کی گئی ہے، جس کا مقصد مسلمانوں کے قدموں کے نیچے سے زمین کھینچ لینا ہے۔ مولانا مدنی نے کہا کہ موجودہ نظام نے مسلمانوں کا حوصلہ اور اعتماد دونوں بری طرح مجروح کر دیے ہیں۔
بھارتی میڈیا رپورٹس کے مطابق مولانا ارشد مدنی کے اس سخت اور دوٹوک بیان پر حکومتی ایوانوں میں تشویش پھیل گئی ہے اور کئی حلقے اس خطاب کو موجودہ حالات پر ایک کھلا سوال اور احتجاج قرار دے رہے ہیں۔
