نیویارک:امریکی سیاست کے افق پر ایک نیا طوفان اٹھ چکا ہے، اور اس سیاسی ہلچل کے مرکزی کردار بن کر سامنے آئے ہیں نیویارک کے نومنتخب میئر ظہران ممدانی، جنہوں نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے پہلی بالمشافہ ملاقات کے بعد نہ صرف اپنے سخت مؤقف کو دہرایا بلکہ واشنگٹن اور نیویارک کے درمیان بڑھتی نظریاتی خلیج کو مزید واضح کر دیا ہے۔ ایک خصوصی انٹرویو میں جب ممدانی سے پوچھا گیا کہ کیا وہ اب بھی صدر ٹرمپ کو فاشسٹ، جمہوریت کے لیے خطرہ اور سیاسی انتہاپسند سمجھتے ہیں، تو انہوں نے بلا کسی تذبذب اور صاف گوئی سے کہا:
ہاں، میں آج بھی وہی سمجھتاہوں جوپہلے کہہ چکا ہوں،میرا مؤقف تبدیل نہیں ہوا۔ظہران ممدانی نے بتایا کہ صدر ٹرمپ کے ساتھ ہونے والی ملاقات رسمی نہیں تھی بلکہ ایک سنجیدہ، براہِ راست اور کئی مواقع پر سخت نوعیت کی گفتگو پر مشتمل تھی۔ ملاقات میں نیویارک سٹی کو درپیش بڑے چیلنجز بشمول امیگریشن چھاپے، تارکین وطن کی گرفتاریوں، بڑھتی ہوئی بے گھری، سستی رہائش کی قلت، پولیس اصلاحات، پبلک ٹرانسپورٹ کے بحران اور شہر کے ’سینکچوئری سٹی‘ اسٹیٹس کے تحفظ پر تفصیلی بات چیت ہوئی۔ ممدانی نے واضح کیا کہ نیویارک دنیا بھر کے لوگوں کا شہر ہے اور یہاں آنے والوں کے لیے قانون، تحفظ اور انسانی وقار پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا۔
نومنتخب میئر کے مطابق شہر کے مختلف علاقوں میں امیگریشن حکام کے اچانک چھاپوں اور گرفتاریوں کی بڑھتی ہوئی اطلاعات نے تارکین وطن برادری کو شدید خوف میں مبتلا کر رکھا ہے۔ کئی خاندانوں نے فرطِ خوف کے سبب گھر سے باہر نکلنا کم کر دیا ہے جبکہ کچھ علاقوں میں مہاجر کمیونٹیز نے بچوں کو اسکول بھجوانا بھی محدود کر دیا ہے۔ ممدانی نے ان چھاپوں کو "انسانی حقوق کی خلاف ورزی” قرار دیتے ہوئے کہا کہ نیویارک ایک محفوظ شہر تھا اور رہے گا، اور وہ اس پالیسی کے دفاع کے لیے ہر قانونی اور آئینی راستہ اختیار کریں گے۔
ظہران ممدانی کی میئرل انتخابات میں کامیابی امریکی سیاست میں ایک غیر معمولی پیش رفت قرار دی جا رہی ہے، خصوصاً اس لیے کہ انہوں نے وہ نشست جیتی جو ریپبلکن پارٹی اور ٹرمپ کے حمایت یافتہ امیدوار کے پاس جانے کی پیشگوئی کی جا رہی تھی۔ اس فتح نے نہ صرف نیویارک کی سیاسی سمت کو تبدیل کر دیا ہے بلکہ قومی سیاست میں بھی ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے کہ شہری ریاستیں وفاقی سطح کی پالیسیوں سے بغاوت کرنے کی ہمت دکھا رہی ہیں۔
سیاسی مبصرین کے مطابق ممدانی کے تازہ بیانات اور سخت مؤقف نے واضح کر دیا ہے کہ آنے والا دور نیویارک اور ٹرمپ انتظامیہ کے درمیان شدید سیاسی کشمکش کا وقت ہوگا۔ اگر امیگریشن چھاپے جاری رہے، اور وفاقی حکومت نے دباؤ بڑھایا، تو یہ تنازع نہ صرف عدالتی چارہ جوئی تک پہنچ سکتا ہے بلکہ قومی سطح پر ایک بڑی سیاسی جنگ میں بھی تبدیل ہو سکتا ہے۔
ماہرین کہتے ہیں کہ امریکا کی اگلی بڑی سیاسی کہانی ٹرمپ اور ممدانی کا آمنے سامنے آنا ہوگی، جس کے اثرات مہاجرین، شہری آزادیوں، پولیس اصلاحات اور ریاستی خودمختاری کے پورے بیانیے پر پڑیں گے۔
ممدانی کے بیانات اور سیاسی مؤقف پر نیویارک کے لبرل شہریوں، انسانی حقوق تنظیموں اور مہاجر برادری نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے انہیں "جرأت مند لیڈر” قرار دیا ہے۔ تاہم ٹرمپ کے حامی حلقوں نے ممدانی کے مؤقف کو اشتعال انگیزی اور غیر ضروری محاذ آرائی سے تعبیر کیا ہے۔
یہ صورتِ حال اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ امریکا میں سیاسی تقسیم مزید گہری ہو رہی ہے اور آنے والا وقت مزید غیر یقینی سیاسی موسم کی نوید دے رہا ہے۔
ظہران ممدانی یکم جنوری کو باقاعدہ طور پر میئر کا عہدہ سنبھالیں گے، اور سیاسی ماہرین پہلے ہی پیشگوئی کر رہے ہیں کہ ان کا دور نیویارک کی سیاست میں ایک نیا باب کھولے گا ایک ایسا باب جس میں اصول، مزاحمت اور سیاسی کشمکش مرکزی کردار ہوں گے۔ملک کی توجہ اب اس بات پر مرکوز ہے کہ کیا یہ کشمکش محض بیانات تک محدود رہتی ہے یا مستقبل میں امریکا کے سیاسی ڈھانچے میں بڑی تبدیلیوں کا باعث بنتی ہے۔
