پاکستان اور بنگلادیش کے درمیان بڑھتی ہوئی تجارت کے تناظر میں ایک نیا مرحلہ اس وقت سامنے آیا جب پاکستان کے سرکاری خریدار ادارے نے ایک بڑے ٹینڈر کے ذریعے ایک لاکھ ٹن چاول کی خریداری کا عمل شروع کیا، جسے بعد ازاں بنگلادیش بھیجا جائے گا۔ یہ اقدام بظاہر تجارتی ضرورت کا حصہ ہے، لیکن اس کے پیچھے دونوں ملکوں کے تعلقات میں آنے والی وہ تبدیلی بھی نمایاں ہے جس نے برسوں تک تعطل کا شکار رہنے والی اقتصادی سرگرمیوں کو دوبارہ فعال کر دیا ہے۔
حالیہ مہینوں میں دونوں ممالک کے درمیان نہ صرف سرکاری سطح پر رابطے بڑھے ہیں بلکہ تجارت کے راستے بھی دوبارہ کھلنے لگے ہیں، جس کی ایک مثال یہ چاول برآمدی ٹینڈر ہے جسے پاکستان میں خاص اہمیت کے ساتھ دیکھا جا رہا ہے۔
ٹینڈر کے مطابق، جو کمپنیاں اس عمل میں حصہ لینا چاہتی ہیں انہیں سیل بند بولیاں جمع کرانا ہوں گی، اور ان کی پیش کی گئی قیمتیں اکیس ورکنگ دن تک برقرار رہنی چاہییں۔ اس کے علاوہ، کامیاب بولی لگانے والوں کے لیے لازم ہوگا کہ وہ معاہدہ ملنے کے پینتالیس دن کے اندر چاول شپمنٹ کے لیے تیار کر دیں۔
اس پورے عمل کے ذریعے ایک لاکھ ٹن لمبے دانے والے سفید چاول کی خریداری کی جائے گی، جسے کراچی کی بندرگاہوں سے براہِ راست بنگلادیش روانہ کیا جائے گا۔ مقدار کے اعتبار سے کم از کم پچیس ہزار ٹن کی بولی جمع کرائی جا سکتی ہے، جبکہ زیادہ سے زیادہ ایک لاکھ ٹن تک بولی دینے کی اجازت ہے، جس میں معمولی سا اتار چڑھاؤ بھی قابل قبول ہوگا۔ چاول تازہ فصل سے ہونا چاہیے اور اس کی کوالٹی کے بارے میں کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔ اسے ہر طرح کی آلودگی، کیڑے، بدبو یا پھپھوندی سے پاک ہونا لازمی ہے۔
یہ پیش رفت اس پس منظر میں بھی اہم سمجھی جا رہی ہے کہ بنگلادیش نے حالیہ ہفتوں میں چاول کی درآمد کے سلسلے میں متعدد ٹینڈرز جاری کیے ہیں تاکہ اندرون ملک قیمتوں کو قابو میں رکھا جا سکے۔ پاکستان کے ساتھ پہلے سے ہونے والے پچاس ہزار ٹن چاول کے سرکاری معاہدے نے دونوں ملکوں کے درمیان تجارت کو تیز کیا اور اسی راستے نے اب نئے ٹینڈر کے لیے بھی بنیاد فراہم کی۔
اس سے پہلے پاکستان نے حکومتِ بنگلادیش کے ساتھ براہِ راست معاہدے کے تحت چاول بھیجا تھا، اور پہلی کھیپ کی بروقت ترسیل نے دونوں ملکوں کے درمیان اس نئے اعتماد کو مزید مضبوط کیا۔ اس کے بعد مزید ٹینڈرز جاری کیے گئے اور پاکستانی برآمد کنندگان نے ان میں دلچسپی بھی دکھائی۔
پاکستان کی جانب سے یہ پیش رفت ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب ملکی چاول کی برآمدات پہلی سہ ماہی میں خاصی کمی کا شکار رہی ہیں۔ کئی برآمد کنندگان نے اس صورتحال کی وجوہات پر بات کرتے ہوئے بتایا کہ نا مناسب پالیسیوں اور پیچیدہ ضابطوں کی وجہ سے بین الاقوامی منڈی میں مقابلہ مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ دوسری طرف بھارت کی طرف سے چاول کی برآمدات دوبارہ شروع ہونے نے بھی مقابلے کو سخت کیا، مگر پاکستانی چاول کچھ مخصوص اعلیٰ قیمت والی منڈیوں میں اپنا حصہ برقرار رکھنے میں کامیاب رہا۔ خاص طور پر امریکہ کی منڈی میں، جہاں بھارت پر کچھ اضافی تجارتی ڈیوٹیاں عائد ہوئیں، پاکستان کے لیے اپنے حصے کو بڑھانے کے راستے کھل گئے۔
اگر مجموعی طور پر دیکھا جائے تو پاکستان اور بنگلادیش کے درمیان یہ بڑھتی ہوئی چاول کی تجارت صرف ایک تجارتی سرگرمی نہیں بلکہ دو ملکوں کے درمیان تعلقات میں آنے والی بہتری کی علامت بھی ہے۔ کئی دہائیوں سے دونوں ممالک کے تعلقات مختلف اتار چڑھاؤ کا شکار رہے، لیکن گزشتہ سال کے سیاسی حالات نے ایک نئی سمت کی بنیاد رکھ دی۔ معاشی تعاون میں اضافہ، بندرگاہی سہولتوں کے استعمال کی پیشکش، اور علاقائی تجارت کے نئے راستوں پر بات چیت نے اس تبدیلی کی رفتار کو مزید مضبوط کیا ہے۔
یہ تمام عوامل مل کر اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ آنے والے وقت میں پاکستان کی برآمدی صنعت، خاص طور پر چاول کے شعبے، کو مزید مواقع میسر آ سکتے ہیں اگر پالیسی اور انتظامی معاملات کو بہتر انداز میں منظم کیا جائے۔ موجودہ ٹینڈر نہ صرف پاکستانی تاجروں کے لیے اقتصادی اہمیت رکھتا ہے بلکہ یہ پاکستان کی علاقائی تجارت کے نقشے میں بھی ایک اہم قدم سمجھا جا رہا ہے، جس سے آئندہ مہینوں میں مزید پیش رفت کی توقع کی جا رہی ہے۔
