انگلینڈ کرکٹ ٹیم کے کپتان بین اسٹوکس نے آسٹریلیا کے ہاتھوں ایک اور بھاری شکست کے بعد اپنی ٹیم پر نہایت سخت اور کھلے عام تنقید کی ہے۔ اسٹوکس کا کہنا ہے کہ مسئلہ کھلاڑیوں کی تکنیکی صلاحیت نہیں بلکہ وہ ذہنی مضبوطی ہے جس کی کمی فیصلہ کن مواقع پر صاف نظر آتی ہے۔ دوسرے ایشیز ٹیسٹ میں ہار کے بعد انہوں نے واضح کر دیا کہ ٹیم کو ٹوٹ پھوٹ سے بچانے کے لیے ذہنی جرات اور دباؤ میں درست فیصلوں کی ضرورت ہے۔
برسبین میں کھیلے گئے ڈے نائٹ ٹیسٹ میں انگلینڈ کے لیے ابتداء سے ہی حالات خراب ہو گئے۔ آسٹریلوی بالر مائیکل نیسر نے اپنی ٹیسٹ کریئر کی بہترین کارکردگی دکھاتے ہوئے 5-42 کی شاندار باؤلنگ کی، جس نے انگلینڈ کی بیٹنگ لائن کو بالکل بے بس کر دیا۔ انگلینڈ پورے میچ میں کسی بھی مرحلے پر رفتار قائم نہ رکھ سکا اور پنک بال کے سامنے ان کی مشکلات کئی گنا بڑھتی رہیں۔
جب انگلینڈ اپنی دوسری اننگز میں کم اسکور پر ڈھیر ہوا تو آسٹریلیا کو جیت کے لیے محض 65 رنز کا ہدف ملا، جو ان کے لیے کوئی چیلنج نہ تھا۔ آسٹریلیا نے دو وکٹوں کے نقصان پر یہ ہدف باآسانی پورا کر لیا، جہاں اسٹیون اسمتھ 23 رنز پر ناٹ آؤٹ رہے جبکہ جیک ویدرالڈ 17 رنز کے ساتھ ساتھ کھڑے رہے۔ اس آسان کامیابی نے صاف ظاہر کر دیا کہ میزبان ٹیم پورے میچ پر حاوی رہی۔
اگرچہ یہ شکست پہلے ٹیسٹ کی طرح صرف دو دن میں ختم ہونے والی ذلت آمیز ہار نہیں تھی، لیکن پھر بھی انگلینڈ کو ایک بار پھر ہر شعبے میں پچھڑتا ہوا دیکھا گیا۔ دونوں میچوں میں آسٹریلیا نے کھیل کی رفتار اپنے ہاتھ میں رکھی جبکہ انگلینڈ فیصلہ کن لمحات میں بار بار موقع گنواتا رہا۔ یہی بات اسٹوکس کے نزدیک سب سے بڑی تشویش ہے۔
اس جیت کے بعد آسٹریلیا نے سیریز میں 2-0 کی برتری حاصل کر لی ہے اور اب انہیں ایشیز برقرار رکھنے کے لیے واضح طور پر فیورٹ سمجھا جا رہا ہے۔ اگلے میچ ایڈیلیڈ، میلبورن اور سڈنی میں کھیلے جانے ہیں، جہاں انگلینڈ کو نہ صرف کارکردگی بہتر بنانی ہوگی بلکہ ذہنی طور پر بھی بالکل مختلف انداز اپنانا پڑے گا۔
میچ کے اختتام پر اسٹوکس نے دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ ٹیم کی ہار کا تعلق مہارت کی کمی سے نہیں، بلکہ ان لمحات سے ہے جب میچ کا رخ ایک چھوٹے فیصلے یا ایک اعتماد بھرے شاٹ سے بدل سکتا ہے۔ ان کے مطابق:
"ہم جب کھیل پر حاوی ہوتے ہیں تو اچھا کھیلتے ہیں، جب پیچھے ہوتے ہیں تو بھی جدوجہد کرتے ہیں… لیکن اصل مسئلہ تب سامنے آتا ہے جب اسکور برابر ہو، اور میچ کا پلڑا کسی بھی طرف جا سکتا ہو۔ ہم انہی نازک لمحات میں بار بار دب جاتے ہیں۔”
دوسری اننگز میں اسٹوکس نے اپنے عمل سے مثال قائم کرنے کی کوشش کی۔ انہوں نے ول جیکس کے ساتھ مل کر 96 رنز کی اہم پارٹنرشپ بنائی، لیکن جیسے ہی جیکس آؤٹ ہوئے، انگلینڈ کی بیٹنگ لائن پھر بکھر گئی اور ٹیم نے 17 رنز کے اندر چار وکٹیں کھو دیں۔ اس اچانک گراؤٹ نے اسٹوکس کے اس بیان کو مزید وزن دیا کہ ٹیم دباؤ کے موقع پر سنبھلنے کے بجائے ٹوٹ جاتی ہے۔
میچ کے بعد اسٹوکس نے اپنی ٹیم کو خصوصاً ذہنی مضبوطی پر کھڑا کرنے کے لیے ایک نہایت سخت مگر واضح پیغام دیا۔ انہوں نے کہا کہ آسٹریلیا کھیلنے کے لیے ہمیشہ ایک مشکل جگہ رہی ہے، جہاں صرف تکنیک نہیں بلکہ عزم اور ہمت کا امتحان بھی لیا جاتا ہے۔
انہوں نے ٹیم میں بار بار دہرایا جانے والا جملہ یاد دلاتے ہوئے کہا:
"ہم یہاں اکثر کہتے رہے ہیں کہ آسٹریلیا کمزور دل والوں کی جگہ نہیں ہے۔”
اور پھر اپنی قیادت کے بارے میں بہت صاف الفاظ میں کہا:
"اور وہ ڈریسنگ روم جس کا میں کپتان ہوں، وہاں بھی کمزور دل لوگوں کی کوئی جگہ نہیں۔”
اسٹوکس کے یہ سخت پیغام اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ انگلینڈ کی بہتری کا سفر ذہنی سطح پر شروع ہوگا۔ اگر کھلاڑی دباؤ کو برداشت کرنا سیکھ جائیں اور فیصلہ کن مواقع پر ثابت قدمی دکھا سکیں، تبھی باقی میچوں میں بہتری کی امید کی جا سکتی ہے۔
