امریکہ میں پاکستان کی سیاسی و انسانی حقوق کی صورتحال ایک بار پھر ہلچل کا باعث بنی ہے، جہاں ڈیموکریٹک پارٹی کے 44 ارکانِ کانگریس نے امریکی وزیر خارجہ کو ایک غیر معمولی اور سخت لہجے میں لکھے گئے خط میں پاکستان میں ’’انسانی حقوق کی بگڑتی حالت اور بین الاقوامی جبر‘‘ پر گہری تشویش ظاہر کرتے ہوئے وزیراعظم شہباز شریف کی حکومت اور فوجی قیادت کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کر دیا ہے۔
اس خط پر پرمیلا جے پال اور کریگ کاسر کی قیادت میں 42 دیگر ارکان کے دستخط درج ہیں، جن میں نمایاں مسلم ارکانِ کانگریس الہان عمر اور راشدہ طلیب بھی شامل ہیں۔
خط میں آرمی چیف فیلڈ مارشل عاصم منیر سمیت فوجی قیادت پر ویزا پابندیوں کی واضح سفارش کی گئی ہے، جبکہ سابق وزیراعظم عمران خان اور دیگر سیاسی قیدیوں کی فوری رہائی، عدلیہ کی آزادی اور آزادی اظہار کے تحفظ کا مطالبہ بھی کیا گیا ہے۔
قانون سازوں نے الزام لگایا ہے کہ امریکہ میں موجود پاکستانی شہریوں کے اہلِ خانہ کو پاکستان میں ہراساں کیا گیا، جو بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے۔
ماہرین کے مطابق اگرچہ پاکستان کے بارے میں اس طرح کے خط اور بل پہلے بھی سامنے آتے رہے، مگر کانگریس نے عملی طور پر کبھی کوئی مؤثر قدم نہیں اٹھایاجس کے باعث یہ تازہ خط بھی زیادہ تر سیاسی دباؤ کا اشارہ سمجھا جا رہا ہے۔
ٹیکساس کی لیمار یونیورسٹی کے پروفیسر اویس سلیم کا کہنا ہے کہ پاکستانی نژاد امریکیوں کی لابنگ کے باعث ایسے بیانات اور بل سامنے آتے رہتے ہیں، مگر امریکی حکومت نے کبھی انہیں پالیسی کی سطح پر اہمیت نہیں دی۔ تاہم اس بار 44 ارکان کی اجتماعی آواز نے پاکستان–امریکہ تعلقات میں ایک نئی سفارتی گرمی پیدا کر دی ہے، جس کے ردعمل کا انتظار اب دونوں ملکوں میں شدت سے کیا جا رہا ہے۔
