صوبہ پنجاب کے مختلف شہروں میں حال ہی میں ایسے جعلی پیغامات کی بھرمار دیکھنے میں آئی ہے جن میں شہریوں پر جھوٹے ای چالان نافذ کیے جا رہے ہیں۔ عام لوگوں نے بتایا کہ انہیں اچانک ایسے مشکوک ایس ایم ایس موصول ہوئے جن میں گاڑی کے نمبر، تاریخ، یا کسی مبینہ خلاف ورزی کا حوالہ دے کر فوری ادائیگی کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔ جیسے ہی یہ شکایات بڑھیں، متعلقہ حکام نے شہریوں کو خبردار کیا کہ موجودہ صورتحال کوئی معمولی سائبر یلغار نہیں بلکہ منظم فراڈ کی ایک ایسی نئی شکل ہے جو عام صارفین کو نشانہ بنا رہی ہے۔
حکام نے واضح کیا کہ سرکاری ادارے کبھی بھی پیغام کے ذریعے شہریوں سے رقم، بینک اکاؤنٹ کی تفصیلات یا اے ٹی ایم کارڈ کا ڈیٹا طلب نہیں کرتے۔ اصل ای چالان بھیجنے کا باقاعدہ نظام ایک ہی مخصوص حکومتی نمبر کے ذریعے چلتا ہے، اور اس کے پیغامات کے اندر تاریخ، مقام، اور خلاف ورزی کی نوعیت واضح تحریر ہوتی ہے۔ شہریوں کو بتایا گیا کہ اگر کسی پیغام میں لنک پر کلک کرنے کا کہا جائے یا فوری ادائیگی پر زور دیا جائے، تو یہ تقریباً یقینی طور پر دھوکے کی کوشش ہے۔ اس صورتحال میں ہدایات جاری کی گئیں کہ ایسے پیغامات کو نظرانداز کرنے کی بجائے فوری طور پر متعلقہ ہیلپ لائن یا سائبر کرائم حکام کو رپورٹ کیا جائے تاکہ ایسے نیٹ ورکس تک رسائی حاصل کی جا سکے جو یہ مہم چلا رہے ہیں۔
حال ہی میں سامنے آنے والے کیسز سے پتا چلا کہ جعل ساز نہ صرف لوگوں کے موبائل نمبرز تک پہنچ چکے ہیں بلکہ وہ ایسے مشینوں کا استعمال بھی کر رہے ہیں جو عام موبائل ٹاور کی طرح کام کرتی ہیں۔ یہ مشینیں چند لمحوں کے لیے اطراف کے موبائل فونز کو اپنے کنکشن میں لے کر ہزاروں کے حساب سے جعلی پیغامات بھیج دیتی ہیں۔ اس طریقہ کار کی وجہ سے شہریوں کو ایک ہی وقت میں سیکڑوں پیغامات موصول ہوتے ہیں، جس سے پورے علاقے میں بے چینی پھیل جاتی ہے۔ ایسے آلات کا استعمال دنیا بھر میں کئی بار رپورٹ ہو چکا ہے اور ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ ان کی وجہ سے موبائل صارفین کی نجی معلومات چوری ہونے کا خطرہ کئی گنا بڑھ جاتا ہے۔
شہریوں نے اس حوالے سے بتایا کہ پہلے تو ایسے پیغامات کو عام فریب سمجھ کر حذف کر دیا جاتا تھا، لیکن حالیہ سلسلے میں دھوکے کے طریقے زیادہ پیچیدہ دکھائی دیتے ہیں۔ جعل ساز نہ صرف اصل اداروں کے نام استعمال کر رہے ہیں بلکہ ایسے الفاظ اور جملے بھی لکھ رہے ہیں جن کی وجہ سے شہری یہ سمجھ بیٹھتے ہیں کہ پیغام واقعی کسی سرکاری ادارے کی طرف سے بھیجا گیا ہے۔ بعض لوگ ان لنکس پر کلک کرنے کے بعد ایسے جعلی ویب پیجز پر پہنچ گئے جو بالکل سرکاری ویب سائٹس کی طرح دکھائی دیتے ہیں۔ ان صفحات پر گاڑی کے نمبر یا شناختی معلومات ڈالنے پر سسٹم فریز ہو جاتا ہے، اور بعد ازاں متاثرہ افراد کے اکاؤنٹس سے رقم غائب ہونے کی شکایات بھی سامنے آئی ہیں۔
اسی وجہ سے متعلقہ حکام نے اپنی ذمہ داری مزید سخت کرتے ہوئے ایسے تمام عناصر کے خلاف کارروائیاں شروع کر دی ہیں جو شہریوں کا اعتماد توڑنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ادارے نے بتایا کہ ان جعل سازوں نے سرکاری ویب سائٹ کی نقل تیار کر کے شہریوں کو دھوکا دینے کی کوشش کی، جس کے بعد مقدمہ درج کر کے شواہد اکٹھے کیے جا رہے ہیں تاکہ اس نیٹ ورک کو مکمل طور پر بے نقاب کیا جا سکے۔ ماہرین کے مطابق ایسے فراڈ میں عموماً وہ گروہ شامل ہوتے ہیں جو بین الاقوامی سطح پر سرگرم ہوتے ہیں اور مقامی لوگوں کو معمولی رقم دے کر ان سے سمیں یا بینک اکاؤنٹس استعمال کرتے ہیں، جس کی وجہ سے اصل مجرموں تک پہنچنا مزید مشکل ہو جاتا ہے۔
اس پیش رفت کے ساتھ ساتھ ٹیکنالوجی کے ماہرین نے شہریوں کو اس بات سے بھی آگاہ کیا کہ موبائل فون استعمال کرنے والوں کو اب اپنی ڈیجیٹل حفاظت پر پہلے سے کہیں زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ صارفین کو تاکید کی گئی کہ کسی بھی نامعلوم نمبر سے موصول ہونے والے لنک پر کلک نہ کریں، اپنے فون کو غیر ضروری ایپلیکیشنز سے پاک رکھیں، اور اگر ممکن ہو تو دوہری توثیق کا نظام فعال کریں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ جعل سازوں کی کامیابی کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے کہ زیادہ تر لوگ جلدی میں یا لاعلمی کے باعث کسی غیر مصدقہ لنک کو کھول لیتے ہیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ سلسلہ محض پنجاب تک محدود نہیں رہے گا بلکہ مستقبل میں ایسے حملے ملک کے دوسرے حصوں میں بھی دیکھنے کو مل سکتے ہیں، کیونکہ سائبر مجرم نئے طریقوں اور سستی ٹیکنالوجی کی بدولت مسلسل اپنے دائرہ کار کو وسیع کر رہے ہیں۔ اسی لیے شہریوں کو مشورہ دیا گئی ہے کہ وہ اپنے موبائل نمبرز صرف قابل اعتماد اداروں تک محدود رکھیں، غیر ضروری سائٹس یا ایپس پر رجسٹریشن کرنے سے گریز کریں، اور کسی بھی ایسی چیز کی شکایت فوری طور پر حکام تک پہنچائیں جو انہیں معمول سے ہٹ کر محسوس ہو۔
اس تمام صورتحال کا سب سے تشویشناک پہلو یہ ہے کہ جرائم پیشہ نیٹ ورکس اب ایسی ٹیکنالوجی استعمال کر رہے ہیں جو پہلے صرف مخصوص ممالک کے پاس ہوتی تھی۔ یہ جدید ٹولز عام مارکیٹ میں دستیاب نہیں ہوتے، لیکن بعض آن لائن پلیٹ فارمز کے ذریعے ان تک رسائی نے فراڈ کرنے والوں کی طاقت میں اضافہ کر دیا ہے۔ ایسے خطرات کے پیش نظر حکومتی اداروں کا کہنا ہے کہ وہ نہ صرف اپنی ویب سکیورٹی بہتر بنا رہے ہیں بلکہ شہریوں میں آگاہی مہم بھی شروع کی جائے گی تاکہ کوئی بھی شخص کسی لالچ یا غلط فہمی میں اپنی مالی معلومات سے محروم نہ ہو جائے۔ شہریوں سے کہا گیا ہے کہ وہ ذمہ داری کا مظاہرہ کریں اور ایسے پیغامات کو فوری رپورٹ کریں تاکہ اس سلسلے کا خاتمہ ممکن ہو سکے۔
